بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
وفاقہ کا عالم رہتا تھا، ایک موقع پر کچھ ازواج نے نان ونفقہ ولباس اور گھر کے اخراجات کے لئے کچھ وسعت کا مطالبہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ مطالبہ ناگوار ہوا، بعض روایات میں کچھ اور واقعات کا بھی ذکر آیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ازواج کی تادیب کے لئے ایک ماہ ان سے علاحدگی کا قصد فرمایا، جسے شریعت کی اصطلاح میں ’’ایلاء‘‘ کہا جاتا ہے۔ (بخاری: الطلاق: باب قول اللہ: للذین یولون الخ) یہ مدت آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مسجد سے اوپر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے مکان کے اوپری کمرے میں گذاری۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شور ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ازواج کو طلاق دے دی ہے، افرا تفری کا عالم تھا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے رہا نہیں گیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، کئی مرتبہ کی درخواست کے بعد باریابی کی اجازت ملی، پہنچے تو دیکھا کہ آقا صلی اللہ علیہ و سلم غم زدہ ہیں ، ایک چٹائی پر تہہ بند میں لیٹے ہیں ، جسم اقدس پر بوریے کے نشان پڑگئے ہیں ، سر کے نیچے چمڑے کا ایک تکیہ ہے، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی ہے، ایک طرف مٹی کے برتن میں جو کے کچھ دانے ہیں ، دوسری طرف پانی کا ایک مشکیزہ ہے، یہ منظر دیکھ کر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بے قابو ہوجاتے ہیں ، اور زار وقطار رونے لگتے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے رونے کا سبب دریافت کیا، عمر عرض کرتے ہیں :آقا صلی اللہ علیہ و سلم ! اللہ کے دشمن قیصر وکسریٰ ریشم ودیبا کے بستروں میں ہیں ، اور آپ حبیب اللہ ہوکر اس حال میں ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم للہ سے اپنے لئے اور امت کے لئے کشادگی کی دعا فرمائیے۔ آقا صلی اللہ علیہ و سلم اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا کہ ابن خطاب! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ ان کے لئے دنیا ہو اور ہمارے لئے عقبیٰ، وہ دنیا کے مزے لوٹ لیں اور ہمارا نصیب آخرت کی ابدی نعمتیں ہوں ۔ (مسلم: الطلاق: باب فی الایلاء) اس کے بعد گفتگو کا سلسلہ دراز ہوا، تاآں کہ آقا صلی اللہ علیہ و سلم کا ملال دور ہوگیا، بالآخر