بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے گھر کا نصف اثاثہ لے کر حاضر ہوئے ہیں ، اور ان کا خیال ہے کہ آج شاید اس کار خیر میں مجھے ابوبکر پر سبقت حاصل ہوجائے گی، مگر جب یہ معلوم ہوا ہے کہ ابوبکر تو کل اثاثہ نذر کرچکے ہیں ، تو بے اختیار کہنے لگتے ہیں : ابوبکر! آپ سے آگے کوئی نہیں جاسکتا ع یہ رتبۂ بلند ملا جس کو مل گیا (ابوداؤد:الزکوۃ: باب فی الرخصۃ فی ذالک) حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ ۱۰؍اوقیہ سونا اور ۲۰۰؍اوقیہ چاندی کا گراں قدر تعاون پیش کررہے ہیں ، حضرت عاصم بن عدی ۱۰۰؍وسق کھجوریں دے رہے ہیں ۔ (المغازی: للواقدی:۲/۳۸۰) اور ذو النورین سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کو تو من جانب اللہ ’’مُجَہِّزُ جَیْشِ الْعُسْرَۃِ‘‘ (اس لشکر کو تیار کرنے والے جیالے) کا اعزاز عطا ہونا تھا، انہوں نے اپنی دولت کے دہانے کھول دئے، پہلے مرحلے میں دوسو اونٹ اور دوسو اوقیہ چاندی حاضر کی، پھردوسرے مرحلے میں مزید ۱۰۰؍اونٹ مع ساز وسامان حاضر کردئے، پھر اس کے بعد مزید ۱۰۰۰؍دینار نذر کردئے، اور پھر مختلف قسطوں میں اپنا تعاون پیش کرتے رہے۔ (شرح الزرقانی:۳/۶۴، عثمان ذو النورین: مولانا سعید اکبرآبادی:۸) حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس فیاضی نے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے دل میں مسرت کی لہر دوڑادی ہے، صلی اللہ علیہ و سلم ور آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمادیا ہے کہ: اے اللہ! میں عثمان سے راضی ہوگیا، آپ بھی راضی ہوجائیے۔ مزید فرمایا کہ اب اس کے بعد عثمان کو کوئی عمل نقصان نہیں پہنچاسکتا، انہوں نے ایسا کردار پیش کیا ہے کہ اب تادم مرگ کوئی اور کام نہ کریں تب بھی بخشش کے لئے بس ہے۔ (مسند احمد:۵/۶۳)