بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
(۴) احادیث شریفہ میں وارد ہوا ہے کہ فتح مکہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت ام ہانی رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے مکان میں تشریف لے گئے اور غسل فرمایا، پھر نماز ادا کی۔ (بخاری: الجزیۃ:باب امان النساء) یہ نماز اشراق بھی تھی اور نماز شکر بھی، اس طرح یہ سبق ملا کہ مسرت وکامیابی کا موقع خدا فراموشی کا نہیں ، خدا کو مزید یاد کرنے اور اس کی بارگاہ میں جبین نیاز خم کرنے کا موقع ہے۔ (۵) فتح مکہ کا سب سے بڑا پیغام عفو ودرگذر کا پیغام ہے، تمام جانی دشمنوں کو نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے معاف کردیا؛ بلکہ ایک نگاہِ خشمگیں بھی ان پر نہیں ڈالی، پھر ان کو مسلمان ہونے پر بھی مجبور نہیں کیا، دنیا کی تاریخ مفتوحین کے ساتھ ایسے حسن سلوک اور عفو ودرگذر کی کوئی مثال پیش نہیں کرسکتی، ابوجہل کے بیٹے عکرمہ فتح مکہ کے موقع پر ڈر کے مارے یمن بھاگ گئے تھے، بیوی کی فرمائش پر ڈرتے ڈرتے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں حاضر ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم انتقام کیا لیتے، کھڑے ہوکر استقبال کیا اور مَرْحَبًا کہہ کر گلے سے لگایا، اور مزید کرم یہ فرمایا کہ مسلمانوں کو بلاوجہ ابوجہل کو برا کہنے اور کوسنے سے روک دیا اور فرمایا کہ یہ مناسب نہیں کہ ایک کافر باپ کی وجہ سے اس کے مسلمان بیٹے کو ایذا پہنچائی جائے۔ (سیر اعلام النبلاء:۱/۳۲۳،السیرۃ النبویۃ:د/صلابی:۲/۵۴۱) اسلام اور پیغمبر اسلام اکو دہشت گردی اور تشدد کی طرف منسوب کرنے والے معاندین اسلام اگر صرف فتح مکہ ہی کی مثال سامنے رکھیں ، تو ان کی غلط فہمیاں دور ہوسکتی ہیں ، رحمت عالم صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی شانِ رحمت سے دلوں اور دماغوں کو مسخر کرلیا تھا، اور ع جو دلوں کو فتح کرلے وہی فاتح زمانہ یہ مجلس ختم ہوتی ہے بس یہی پیغام رحمت یا د رکھئے، اسے دوسروں تک پہنچائیے، خدا