بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اس فرمان سے تمام حاضرین نے سمجھ لیا تھا کہ اس معرکے میں ان تینوں صحابہ کو شہادت کا اعزاز حاصل ہوگا۔ حیات نبوی صلی اللہ علیہ و سلم میں یہ پہلا موقع تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی معرکے کے لئے تین سپہ سالار منتخب فرمائے اور ان کی ترتیبِ قیادت طے فرمادی، یہ انتخاب وترتیب بجائے خود صورتِ حال کی ہول ناکی اور حساسیت کی علامت تھی۔ بہرحال یہ لشکر روانہ ہوا، طویل مسافت طے کرکے جب لشکر اردن کے علاقے میں مقام ’’معان‘‘ پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ ایک لاکھ کی فوج مقابلے کے لئے آرہی ہے، اور مزید ’’ہرقل‘‘ نے ایک لاکھ کی کمک اور بھیجی ہے، گویا تین ہزار افراد پر مشتمل اسلامی فوج کو دشمن کی دو لاکھ نفری سے مقابلہ درپیش ہے، چناں چہ مسلمانوں نے اس صورتِ حال پر غور کیا، طے ہورہا تھا کہ آگے بڑھنے سے قبل یہ پوری کیفیت مدینہ منورہ لکھ کر بھیج دی جائے، اور حکم نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کا انتظار کیا جائے؛ لیکن شاعر اسلام حضرت عبد اللہ بن رواحہ نے اس موقع پر انتہائی ولولہ انگیز خطاب کیا، اور فرمایا کہ: مسلمانو!کس بات سے ڈرتے ہو؟ ہم تو شوقِ شہادت میں نکلے ہیں ، منزل سامنے ہے، ہم کبھی تعداد کے بل پر اور اسلحہ کے بھروسے پر نہیں لڑتے، ہم تو دین حق کی خاطر سر دھڑ کی بازی لگاتے ہیں ، دو میں سے ایک سعادت ہماری منتظر ہے، فتح یا شہادت۔ (السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ،د/اکرم ضیاء العمری:۲/۴۶۸) یہ خطاب سن کر پورا مجمع جہاد کے لئے چل پڑا، اب مقابلہ شروع ہوگیا، ایک طرف ۳؍ہزار ایمان وتوکل کے سرمائے سے مالا مال نفوسِ قدسیہ ہیں ، دوسری طرف دو لاکھ کا لشکر جرار، گھمسان کی لڑائی ہورہی ہے، حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ شہید ہوگئے ہیں ، علم حضرت جعفر طیار رضی اللہ عنہ نے لیا ہے، وہ مردانہ وار مقابلہ کررہے ہیں ، دشمنوں نے ان کا