بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
(۳) قریش اور یہود میں تفریق پیدا ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اصل منشاء یہی تھی۔ (۴) قریش نے مسلمانوں کی مساوی حیثیت تسلیم کرلی، یہ بہت بڑی سیاسی فتح تھی، نیز قریش کی کعبہ پر اجارہ داری ختم ہوئی اور بیت اللہ کی زیارت کا حق تسلیم کرالیا گیا۔ (۵) پھر اس صلح نے آگے آنے والے ایام میں اسلام کی دعوت اور تحریک کی توسیع کے لئے پرامن راستہ اور بے خطر ماحول فراہم کیا، منافرت اور کشیدگی دور ہوئی تو قرب بڑھا، احساسِ رواداری پروان چڑھنے لگا، لوگوں کو اسلام سمجھنے کا موقع ملا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صلح حدیبیہ کے بعد اتنی بڑی تعداد میں لوگوں نے اسلام قبول کیا کہ بعثت نبوی سے اب تک اتنے لوگ مسلمان نہیں ہوئے تھے۔ ان افراد میں حضرت خالد بن الولید بھی ہیں ، جنہیں ’’سیف اللہ‘‘ کا لقب ملا، حضرت عمروبن العاص بھی ہیں ، حضرت حاتم بن عدی بھی ہیں ، حضرت عثمان بن ابی طلحہ بھی ہیں ، حدیبیہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہمراہ ۱۴۰۰؍مسلمان تھے، اس کے صرف دو ہی سال بعد فتح مکہ میں مسلمان دس ہزار سے متجاوز تھے، اور اس کے دو سال بعد حجۃ الوداع میں یہ تعداد سوا لاکھ تک پہنچ گئی تھی، اشاعت اسلام میں حدیبیہ کی صلح کا یہ وہ عظیم کردار ہے جو پوری امت مسلمہ کو دعوتی فرض کی ادائیگی کے لئے حساس وفکر مند ہونے کا پیغام دیتا ہے۔ نبوت کے آخری چار سالوں میں اسلام کی یہ برق رفتار پیش رفت صلح حدیبیہ کی برکت ہے، افسوس کہ ہم نے یہ سبق بھلادیا ہے، اور داعی قوم غیروں کی مدعو اور بھکاری بن کر رہ گئی ہے۔ (۶) دنیا کے مختلف سربراہوں کو دعوتی خطوط لکھے گئے، سفارتی مشن پر قاصد وسفیر بھیجے گئے، اس طرح اسلام کا بین الاقوامی دور شروع ہوا۔ (۷) صلح حدیبیہ کا ایک نمایاں سبق یہ ہے کہ امت ہر مرحلۂ زندگی میں جذباتیت پر شعور کو اور جوش پر ہوش کو غالب رکھے، حدیبیہ کے مقام پر بار بار دشمنوں کی طرف سے