بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
آپ صلی اللہ علیہ و سلم مجھ سے رسمی بات تو کررہے تھے، مگر سابقہ بشاشت نہیں تھی، بالآخر انہیں صورتِ حال معلوم ہوئی، یہ خبر سن کر روتے روتے آنسو خشک ہوگئے، میکے آئیں ، والدین نے صبر کی تلقین کی، اسی حالت میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم تشریف لائے، اور حضرت عائشہ کو خطاب کرکے فرمایا کہ مجھے ایسی اطلاع ملی ہے، اگر تم بری ہو تو اللہ برأت ظاہر فرمادے گا، اور اگر خدا نخواستہ کوئی گناہ صادر ہوگیا ہے تو توبہ کرلو، اللہ توبہ قبول کرلیتا ہے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے والدین سے کہا کہ جواب دیجئے، مگر وہ خاموش رہے، حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے خود ہی کہا کہ میں اس مرحلے میں ہوں کہ اگر میں سچ بول دوں کہ میں بری ہوں تو آپ کو یقین نہیں آئے گا، اور اگر میں جھوٹ بولوں اور جرم کا اقرار کرلوں تو آپ یقین کرلیں گے، میرا تو بس یہی کہنا ہے کہ: فَصَبْرٌ جَمِیْلٌ وَاللّٰہُ الْمُسْتَعاَنُ عَلَی مَا تَصِفُوْنَ۔ صبر ہی بہتر ہے اور اللہ ہی سے مدد مطلوب ہے۔ بس اسی وقت وحی الٰہی کا نزول ہوا، اور قرآنِ کریم کی صریح ودوٹوک آیات کے ذریعہ دو رکوع میں ام المؤمنین کی برأت اور ریشہ دوانی میں مصروف دشمنوں کی سازشوں کا مکمل بیان سامنے آیا، اس کے بعد الزام لگانے والوں پر سزائیں جاری کی گئیں ، عبد اللہ بن ابی جو اس فتنے کا سردار تھا، اس پر ڈبل حد جاری ہوئی۔ (واقعۂ افک کی مکمل تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو: بخاری: المغازی: حدیث الافک، زاد المعاد:۲/۱۱۳ الخ) مقام غور ہے: (۱) اس واقعہ سے امت کے سامنے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا مقام عظمت ظاہر ہوا کہ یہ وہ خاتونِ جنت ہے جس کی عفت کی گواہی میں خدا بول اٹھا، اور قرآن نے برأت ظاہر فرمادی۔