بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
کی عطا کی ہوئی ہے۔ سورج طلوع ہوچکا ہے، احد پہاڑ جس کے بارے میں آقا صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ: إِنَّ أُحُداً جَبَلٌ یُحِبُّنَا وَنُحِبُّہُ۔(مسلم: الحج: باب فضل احد) بلاشبہ احدوہ پہاڑ ہے جو ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ۔ اس پہاڑ کے دامن میں کفر وایمان معرکہ آرا ہیں ، آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے ہاتھ میں ایک تلوار اور جسم پر دو زرہیں ہیں ، آغاز جنگ میں ہی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجاہدین میں جوش پیدا کرنے کے لئے اپنی تلوار لہرائی ہے اور فرمایا : مَنْ یَأخُذُ ھَذَا السَّیْفَ بِحَقِّہِ؟ کون ہے جو اس کا حق ادا کرے گا؟ حضرت زبیربڑھے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھ روک لیا، پھر دوبارہ اعلان فرمایا، سرفروشی کے لئے حضرت عمر وعلی سمیت متعدد صحابہ آگے آئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہاتھ روک لیا، سہ بارہ اعلان ہوا، تو ہر مجاہد کی رگ حمیت بیدار ہوئی، اور جذبۂ جاں نثاری کمال تک پہنچ گیا، حضرت ابودجانہ بے تابانہ آگے آئے، عرض کیا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ و سلم للہ: اس کا حق کیا ہے ؟ فرمایا کہ اس کا حق یہ ہے کہ دشمن کے منہ پر اس سے کاری حملہ کیا جائے، کوئی کافر اس سے بچنے نہ پائے، اور کوئی مسلمان اس سے نہ مارا جائے، ابودجانہ بولے کہ آقا! میں اس کا حق ادا کروں گا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے تلوار انہیں عطا فرمادی، یہ شمشیرآب دار ابودجانہ کے لئے مایۂ افتخار تھی، انہوں نے ماتھے پر سرخ پٹی باندھی جو دشمنوں کے لئے موت کی پگڑی ثابت ہوئی، اور وہ تلوار لے کر میدان کارزار میں جاگھسے اور تلوار کی لاج رکھ کر دکھائی، جو دشمن سامنے آیا کام تمام کردیا، ان کی معرکہ آرائی نے ہلچل مچادی، ایک مرحلہ میں قریب تھا کہ ان کی تلوار دشمنوں کی صف کے آخر میں موجود ابوسفیان کی بیوی ہندہ پر چل جاتی، مگر وہ چیخی، تب حضرت ابودجانہ نے سمجھا