بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
کفالت میں رہیں گے، تم مدینہ جاکر محمد کا کام ضرور تمام کرڈالو، عمیر نے ارادہ ٹھان لیا، راز داری کا عہدہوا، تیز دھاروالی زہر آلود تلوار چھپائی، مدینہ روانہ ہوا۔ مسجد نبوی کے قریب عمیر پہنچتا ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نگاہ پڑجاتی ہے، ان کی چھٹی حس نے خبردار کیاہے کہ یہ بری نیت سے آیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی اجازت سے عمیر کو پکڑکر لے جاتے ہیں ، عمیر نے جاہلیت کی رسم کے مطابق سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسلامی سلام کا طریقہ ذکر فرمایا، دریافت کیا کہ: کیوں آئے؟ عمیر بولا: بیٹا آپ کے پاس قید ہے، اسی کی فکر مجھے لائی ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: پھر تلوار گردن میں کیوں ہے؟ بولا: بھول گیا، پھر یہ تلواریں ہمارے کس کام کی ہیں ؟ بدر میں انہوں نے ہمارا کیا ساتھ دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم مسکرائے، فرمایا کہ: تم نے اور صفوان نے حطیم میں تو یہ طے کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وحی الٰہی کی مدد سے ان کی باہمی رازدارانہ گفتگو پوری ہو بہ ہو سنادی، عمیر یہ راز سربستہ سن کر بالکل حیران وششدر رہ گیا، بے اختیار کہہ پڑا کہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم للہ کے رسول ہیں ، اللہ آپ کو وحی کے ذریعہ خبر دیتا ہے، تمام تعریفیں اسی اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھ پر حق کی راہ کھول دی۔ عمیر نے ایمان قبول کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے بیٹے کو بلامعاوضہ رہا کردیا، اللہ نے اس دین میں ،پیغمبر اسلام امیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی ایک نگاہ دل نواز میں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی زبان کے بولوں میں کس قدر تاثیر پیدا فرمائی تھی کہ جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے قتل کے ارادے سے آیا تھا وہ خود حق کا شکار بن گیا ؎ جو نہ تھے خود راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا فتح مکہ کے سفر میں عمیر آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے ہم رکاب ہیں ، عام معافی کے اعلان کے بعد عرض کرتے ہیں : یا رسول صلی اللہ علیہ و سلم للہ! میرا دوست صفوان ڈر کی وجہ سے روپوش ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ میں اسے امان دیتا ہوں ، عمیر عرض کرتے ہیں کہ کوئی نشانی عطا ہوجائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم