بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
آقا نے زور سے طمانچہ مارا، اور بولا: ’’تمہیں اس سے کیا غرض، تم اپنا کام کرتے رہو۔‘‘ حضرت سلمان شام کو قبا پہنچے ہیں ، آقا صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں حاضر ہیں ، صدقہ کی کھجوریں پیش کرتے ہیں ، آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ کھجوریں دوسروں میں تقسیم کردیں ، خود نہیں کھائیں ، یہ پہلی علامت کا ظہور تھا، کچھ دنوں بعد پھر حاضر ہوئے، ہدیہ پیش کیا، آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے قبول کرلیا، خود بھی استعمال کیا اور حاضرین کو بھی شریک کیا، یہ دوسری علامت کا ظہور تھا۔ کچھ دنوں کے بعد کسی جنازے میں شرکت کے لئے حاضر ہوئے، تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے اِرد گرد چکر کاٹنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھانپ گئے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی پشت مبارک سے چادر سرکادی، مہر نبوت سامنے نظر آئی، سلمان کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، عقیدت سے مہر نبوت چوم لی، تلاشِ حق کا سفر ختم ہوگیا تھا، منزل ہاتھ آگئی تھی، فواراً کلمہ پڑھا، آقا صلی اللہ علیہ و سلم کو داستان سنائی، پہلے نام ’’مابہ‘‘ تھا، آقا صلی اللہ علیہ و سلم نے ’’سلمان‘‘ نام رکھا۔(طبقات ابن سعد :۴/ ۲۳۳) غلامی سے آزادی کی بات آئی تو یہودی آقا نے ۳۰۰؍کھجور کے بار آور درختوں اور ۴۰؍اوقیہ چاندی کی شرط لگادی، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی تحریک پر انصار نے اپنے باغوں سے ۳۰۰؍پودوں کا انتظام کیا، متعین مقام پر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بدست خود یہ پودے لگائے، پیغمبر علیہ السلام کا معجزہ ظاہر ہوا کہ ایک ہی سال میں یہ سارے درخت بار آور ہوگئے، اسی طرح ۴۰؍اوقیہ چاندی کا انتظام بھی کرایا، حضرت سلمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ آزاد ہوئے، انہیں کی مشورت سے غزوۂ احزاب میں خندق کھودی گئی۔ (طبقات ابن سعد:۴/۲۳۳، سیرت ابن ہشام:۱/۷۳، سیرت المصطفیٰ:۱/ ۴۲۴) راہِ حق کے اس مخلص مسافر کی قربانیوں اور تلاشِ حق کے سفر کی عزیمتوں کے صلہ میں زبانِ نبوت سے کبھی انہیں ’’سَلْمَانُ مِنَّا أَہْلَ الْبَیْتِ‘‘ (سلمان میرے اہل بیت میں سے ہیں ) کا اعزاز ملا، کبھی یہ ارشاد ہوا: