بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اللہ عنہ پکار اٹھے تھے: جَزَاکُمُ اللّٰہُ یَا مَعْشَرَ الأَنْصَارِ خَیْراً۔ اے انصار: اللہ تم کوجزائے خیر عطا فرمائے۔ (جوامع السیرۃ: لابن حزم: ۱۲۰) بحرین کی فتح کے بعد بھی جب وہاں کی مفتوحہ آراضی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے انصار کو دینی چاہیں تو انہوں نے اسی ایثار کا مظاہرہ کیا تھا اور کہا تھا کہ ہم کوئی حصہ نہیں لیں گے جب تک اتنا ہی ہمارے مہاجر بھائیوں کو نہ مل جائے۔ (بخاری: الجزیۃ: باب مااقطع النبی) اسی کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بیان فرمایا ہے: وَالَّذِینَ تَبَوَّئُ وا الدَّارَ وَالإِ یمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْہِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِی صُدُورِہِمْ حَاجَۃً مِمَّا أُوتُوا وَیُؤثِرُونَ عَلَی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌ۔ (الحشر: ۹) جو لوگ پہلے ہی سے اس جگہ (مدینہ) میں ایمان کے ساتھ مقیم ہیں ، اور ہجرت کرکے آنے والوں سے محبت کرتے ہیں ، اور جو کچھ مہاجرین کو دیا جاتا ہے، یہ اپنے سینوں میں اس کی کوئی خواہش بھی محسوس نہیں کرتے، اور ان کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں ، خواہ خود اپنی جگہ محتاج ہی کیوں نہ ہوں ۔ مؤاخات کا یہ قانونی رشتہ ایک مدت تک رہا، پھر جب مہاجرین نے مدینے میں اپنی جگہ بنالی تو پھر اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ مؤاخات کا یہ نظام نبوی تدبر وبصیرت کا آئینہ دار ہے، اور یہ نظام صرف چند بے گھر اور بے سہارا افراد کے معاشی مسائل کا حل نہیں تھا؛ بلکہ اس حقیقت کا اظہار واعلان بھی تھا کہ اسلام میں اصل تعلق دین کا تعلق ہے، دوسرے تمام تعلقات اور حیثیتیں اضافی ہیں ، اصل نہیں ہیں ، اللہ کی نگاہ میں کیا امیر ؟کیا غریب؟ کیا چھوٹا ؟کیا بڑا؟ کیا گھر والا ؟کیا بے گھر؟