بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
نور خدا ہے کفر کی ظلمت پہ خندہ زن پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا کاشانۂ نبوت کے باہر صنادید مکہ ننگی تلوار لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے باہر آنے کے منتظر ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نکلیں اور نعوذ باللہ چشم زدن میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو قتل کردیا جائے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اہل مکہ کی امانتیں ان تک پہنچانے کے لئے حضرت علی کو اپنے بستر پر سلادیا۔ غور فرمایا جائے: موت کا خطرہ ہے، پھر بھی امانتوں کی ادائیگی کی فکر ہے، پیغمبر علیہ السلام کی سیرت کا یہ گوشہ کس قدر فکر انگیز ہے، اور ہم کو امانتوں کے تعلق سے کس قدر حساس دیکھنا چاہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم حکم الٰہی کے مطابق گھر سے نکل رہے ہیں ، سورۂ یٰس کی آیات زبان پر ہیں ، باہر نکلے توآیت کریمہ: وَجَعَلْنَا مِنْ بَیْنِ اَیْدِیْہِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِہِمْ سَدًّا فَاَغْشَیْناَہُمْ فَہُمْ لَا یُبْصِرُوْنَ۔ زبان پر ہے، مٹی ہاتھ میں ہے، یہ آیت پڑھ کر مٹی اس طرح پھینکی کہ ہر دشمن کے سر پر پڑگئی، کوئی آنکھ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو نہ دیکھ سکی، آنکھوں کو بصارت کا نور عطا کرنے رب نے اپنے محبوب اکی حفاظت کے لئے اس لمحے ان دشمنوں کی بصارتیں سلب کرلیں ۔ (زاد المعاد:۲/۵۳، سیرت ابن ہشام:۱/۴۸۳ صلی اللہ علیہ و سلم لخ) آج دنیا کا سب سے بڑا محسن بغیر کسی قصور کے بے گھر ہورہا ہے، آج ان گلیوں کو الوداع کہہ رہا ہے جہاں اس کا بچپن گذرا، جوانی گذری، کلیجہ کٹ رہا ہے، آنکھیں ڈب ڈبا رہی ہیں ، چشم پرنم، دل پر غم کے ساتھ نکل رہے ہیں ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے آخری نگاہ ڈالتے ہوئے مکہ سے خطا ب کیا تھا: وَاللّٰہِ! إِنَّکِ لَخَیْرُ أَرْضِ اللّٰہِ وَأَحَبُّ أَرْضِ اللّٰہِ إِلَيَّ