بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
آپ نے دیکھا، مکہ کی زمین اسلام کی دشمن بنی ہوئی تھی، طائف اسلام سے بے زار تھا، اب وقت آگیا تھاکہ اللہ کا وعدہ پورا ہو، اب وقت آگیا تھا کہ یثرب مدینۃ الرسول بنے، مسلمان جوق درجوق ہجرت کررہے تھے، مدینہ منورہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے لئے دیدہ ودل فرش راہ کئے ہوئے تھا، اہل مدینہ پلکیں بچھائے ہوئے تھے، ایک طرف یہ ہورہا تھا، دوسری طرف مکہ کے دارالندوہ میں دشمنوں کی فیصلہ کن میٹنگ ہورہی تھی، یہ طے ہوا تھا کہ اب وہ وقت آچکا ہے کہ محمدا کو قتل کردیا جائے، طے کیا گیا کہ ہر خاندان کے اہم افراد مل کر ننگی تلواروں کے ساتھ بیک وقت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا کام تمام کردیں ۔ (سیرت ابن ہشام: ۲/۴۸۱) قرآن کہہ رہا ہے: وَاِذْ یَمْکُرُ بِکَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا لِیُثْبِتُوکَ اَوْ یَقْتُلُوْکَ اَوْ یُخْرِجُوْکَ، وَیَمْکُرُوْنَ وَ یَمْکُرُ اللّٰہَ، وَاللّٰہُ خَیْرُ الْمَاکِرِیْنَ۔(الانفال/۳۰) وہ وقت یاد کرنے کے قابل ہے ،جب کافر لوگ منصوبے بنارہے تھے،کہ آپ کو گرفتار کرلیں ، یا آپ کو قتل کردیں ،یا آپ کو وطن سے نکال دیں ، وہ اپنے منصوبے بنارہے تھے،اور اللہ اپنا منصوبہ بنارہا تھا، اور اللہ سب سے بہتر منصوبہ بنانے والا ہے ۔ دشمن تدبیر کررہا تھا، مگر اللہ کی اپنی تدبیر الگ تھی،آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو اللہ تعالیٰ نے پوری خبر دے دی، ہجرت کی اجازت مل گئی، عین دوپہر میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم حضرت صدیق اکبر ؓکے یہاں گئے، نظام سفر طے ہوگیا۔ (بخاری: المناقب: باب ہجرۃ النبی) ۲۷؍صفر ۱۴؍نبوی صلی اللہ علیہ و سلم توار کی رات ہے، یہ وہ رات ہے جس کی اوٹ سے ہجرت کی، پھر نصرت کی، پھر فتح وغلبے کی سحر طلوع ہونی ہے، یہ وہ رات ہے جس نے دنیا کو اللہ کا یہ فیصلہ دکھادیا ہے کہ ؎