بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اے نبی: آپ کے لئے تو بس اللہ اور وہ مومن لوگ کافی ہیں جنہوں نے آپ کی پیروی کی ہے ۔( تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : سیرت ابن ہشام:۱/ ۳۴۳-۳۴۶، فتح الباری :۷/ ۶۱، کنز العمال: الفضائل:۱۲/۲۴۸) حضرت حسنؓ فرماتے تھے: لَقَدْ فَرِحَ اَہْلُ الْاِسْلَامِ بِاِسْلَامِ عُمَرَ۔ (کنزالعمال:۱۲/۲۶۸) حضرت عمرؓ کے قبول اسلام سے تمام مسلمان بہت خوش ہوئے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان ہے: مَا زِلْنَا أَعِزَّۃً مُنْذُ أَسْلَمَ عُمَرُ۔ (بخاری: المناقب: مناقب عمر) جب سے عمرؓ اسلا م لائے ، ہم باعزت ہوگئے۔ یہ بھی کہا گیا : کَانَ إِسْلامُ عُمَرَ فَتْحاً وَہِجْرَتُہُ نَصْراً وَخِلاَفَتُہُ رَحْمَۃً۔(کنزالعمال:۱۲/۲۶۸) حضرت عمرؓ کا اسلام فتح تھا، ان کی ہجرت اللہ کی نصرت تھی، ان کی خلافت اللہ کی رحمت تھی۔ حضرت عمرؓ مرادِ نبی تھے، انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے عرض کیا کہ کیا ہم حق پر نہیں ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : کیوں نہیں ، حضرت عمر نے کہا: پھر چھپنا کیسا ؟ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے ،ہم ضرور باہر نکلیں گے، چنانچہ صحابہ مسجد حرام میں آئے، قریش نے عمرؓ وحمزہؓ کو دیکھا تو دلوں کو گہرا زخم لگا، صحابہ برملا نماز ادا کرنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے عمرؓ کو فاروق کا لقب دیا۔( دلائل النبوۃ: ابو نعیم:۱/۳۴۲-۳۴۳، الاصابۃ: ۲/ ۵۱۹) mvm