بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اِدھر مکہ میں قرآن کی کھلی تاثیر کا یہ منظر سامنے آیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحن کعبہ میں سورۂ نجم کی تلاوت قریش کے سامنے فرمائی، سورت کا صوتی آہنگ، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا پرتاثیر وپرسوز لہجہ، حاضرین پر وجد طاری ہوگیا، آخری آیت سجدہ آئی، تو مسلم وغیرمسلم، مؤمن وکافر سب حاضرین بے اختیار سجدہ ریز ہوگئے، صرف عتبہ، ولید اور امیہ نے سجدہ نہیں کیا، تکبر کی وجہ سے زمین کی خاک ہاتھ میں لے کر ماتھے پر مل لی، اللہ کاکرنا، ان تینوں کے علاوہ باقی سب حاضرین کو بعد میں اللہ نے ایمان کی دولت سے نوازا۔(بخاری: سجود القرآن: باب سجدۃ النجم) بے اختیار سجدے کا یہ واقعہ مہاجرین حبش کو اس انداز میں پہنچا کہ مکہ میں سب مسلمان ہوگئے ہیں ، یہ سن کر ان مہاجرین میں سے اچھے خاصے لوگ مکہ واپس آگئے؛ لیکن آکر دیکھا تو صورتِ حال پہلے سے زیادہ دشوار تھی، اور مسلمانوں کے خلاف ظلم وستم اپنے شباب پر آچکا تھا۔(طبقات ابن سعد:۱/۲۰۶، سیرت ابن ہشام:۱/۳۶۴) اس لئے نبوت کے چھٹے سال کے شروع میں دوبارہ مسلمانوں کا دوسرا بڑا وفد ۸۲؍مردوں اور ۱۸؍عورتوں پر مشتمل حبشہ ہجرت کرگیا، اس وفد میں حضرت جعفر بن ابی طالب بھی تھے، جن کے ساتھ نجاشی شاہِ حبش کے نام مہاجرین کے ساتھ حسن سلوک کی تلقین کے مضمون پر مشتمل آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا گرامی نامہ بھی تھا، ان مہاجرین کو اسی بنا پر اعزاز کے ساتھ رہنے کی اجازت مل گئی، مکہ کے دشمنوں کو مسلمان مہاجرین کا چین سے رہنا گوارا نہیں ہوا، قریش نے اپنے دو نمائندوں عمرو بن عاص اور عبد اللہ بن ربیعہ پر مشتمل ایک وفد حبشہ بھیجا، یہ وفد حبشہ پہنچتا ہے، نجاشی کے تمام درباریوں کو رشوت دینے کے بعد راہ ہموار کرتا ہے، پھر نجاشی کی خدمت میں بیش قیمت نذرانہ پیش کرتا ہے، پھر کہتا ہے کہ ہمارے شہر مکہ کے کچھ نادان لڑکے اور غلام بھاگ آئے ہیں ، یہ ہمارے دین سے بھی نکل گئے ہیں ، اور آپ کے دین عیسائیت میں بھی داخل نہیں ہوئے ہیں ، ہمارے سربراہوں نے ہمیں آپ کے پاس بھیجا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نہیں ہمارے حوالے کردیجئے، سارے درباریوں نے ان کی تائید کی، اور