آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ایک شخص نے حضرت مولانا محمد یعقوب صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا تھا کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ حائض سے نماز تو ساقط ہوگئی اور روزہ کی قضا لازم ہے، جواب دیا کہ وجہ یہ ہے کہ اگر ایسا نہ کرو گے تو اتنے جوتے سر پر پڑیں گے کہ سر پر بال بھی نہ رہیں گے، اس جواب کی یہ وجہ نہ تھی کہ مولانا کو حکمت معلوم نہ تھی بلکہ اس کے لیے یہی جواب مناسب تھا کیوں کہ مابہ الفرق سمجھنے کی لیاقت اس میں نہیں تھی، چنانچہ اسی سوال کو دوسرے ایک فہیم نے دوسری مجلس میں پوچھا تو آپ نے اس کو مفصلاً بیان کردیا تو ہر مخاطب کا مذاق جدا ہے ہرایک کی حالت جدا ہے اس کی حالت کے موافق جواب دینا چاہئے۔۱؎ ایسے ہی ایک اور شخص کا خط میرے پاس آیا کہ فلاں حکم میں کیا حکمت ہے، میں نے لکھا کہ سوال عن الحکمت میں کیا حکمت ہے، خدا کے حکم کی حکمت تو ممکن ہے بندہ کو معلوم نہ ہو، مگر سوال تو تمہارا فعل ہے تم کو اپنے فعل کی حکمت ضرور ہی معلوم ہوگی، مہربانی کرکے ذرا بتلاؤ تو سہی میں نے یہ خیال کیا تھا کہ اگر وہ سوال عن الحکمت کی کچھ حکمت بتلائیں گے تو میں اس کو باطل کردوں گا۔ اسی طرح میرے پاس ایک شخص کا سوال آیا کہ ہند وستان دارالحرب ہے یا دارالاسلام؟ میں نے جواب دیا کہ اگر آپ کو معلوم ہوجائے کہ یہ دارالحرب ہے تو آپ کیا کریں گے، بس اس کے بعد پھر سوال نہیں آیا۔ بات یہ ہے کہ آج کل مذاق ایسا بگڑا ہوا ہے کہ عوام تو عوام خواص کو بھی فضول سوالات کا مضر ہونا معلوم نہیں اس کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ اس سے قلب پر بھی کچھ اثر ہوتا ہے۔ ۲؎ میرے پاس ایک خط آیا کہ کافر سے سود لینا کیوں حرام ہے وہ اس کی علت دریافت کرنا چاہتے ہیں میں نے جواب میں لکھا کہ کافر عورت سے زنا کرنا کیوں حرام ہے؟۔ پھر انہوں نے لکھا کہ علماء کو اتنا خشک نہ ہونا چاہئے میں نے دل میں جواب دیا ------------------------------ ۱؎ آداب التبلیغ ص:۹۲۔ ۲؎ جمال الجلیل جزاء و سزا۱۴؍۴۱۔