آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
بڑھتی رہی، آخر کار نجات ہوئی تو اس بات سے ہوئی کہ ہم کیا جانیں ہمارا علم ہی کیا ہے ہم جانتے ہی کیا ہیں ، پھر ہم اس مسئلہ میں غور ہی کیوں کریں ؟ واللہ اس وقت قدر ہوئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس امر کی کہ مسئلہ قدر میں غور نہ کرو۔ خدا ناس کرے ان ظالموں کا جو اس ارشاد کی قدر نہیں کرتے اور اسلام پر شبہ کرتے ہیں کہ مسئلہ قدر پر جو اشکالات پڑتے ہیں ان کا جواب اسلام میں ہے ہی نہیں ، اس لیے غورکرنے اور گفتگو کرنے سے منع فرمادیا گیا،ارے احمق! سارے جوابوں کے بعد بھی تسلی اسی سے ہوگی کہ یوں کہہ دو کہ ہم نہیں جانتے رہے اشکالات تو لاؤ اشکالات پیش کرو ہم سب کا جواب ایسا دیں گے کہ تم لاجواب اور ساکت ہوجاؤ گے مگر تسلی نہ ہوگی۔ تسلی اور شفاء اسی سے ہوگی کہ اس میں غور فکر ترک کردو، اس وقت قدر ہوگی وَمَا اُوْتِیْتُمْ مِن الْعِلْم إلاَّ قَلیْلاً کی، کہ واقعی ہمارا علم کچھ نہیں اور ہم کچھ نہیں جانتے۔ لااعلم کہہ دینا بڑی راحت کی بات ہے اور اعلم (یعنی میں جانتا ہوں ) کہنا مصیبت کو اپنے سر لینا ہے اس لیے ایک عاقل کی رائے ہے کہ حتی الامکان جواب نفی میں دیا کرو کیونکہ نفی میں جواب دینا اہون آسان ہے اور اثبات میں جواب دینا اشد (سخت)ہے، مثلاً اگر تم سے کسی نے سوال کیا کہ آپ نے کلکتہ دیکھا ہے؟ اس کے جواب میں اگر یہ کہہ دیا کہ ہاں دیکھا تو بس سوالات شروع ہوجائیں گے کہ بتلاؤ وہاں کیا کیا عجائبات ہیں ، چڑیا گھڑ کتنا بڑا ہے اور قلعہ کیسا ہے؟ وغیرہ وغیرہ، اگر یہ کہہ دیا کہ میں نے کلکتہ نہیں دیکھا تو اس پر کوئی سوال نہیں ہوسکتا پس راحت اسی میں ہے کہ جب کوئی فضول سوال کرے تو اس کے جواب میں یا تو اپنے جاہل ہونے کااقرار کرے یا سائل کو جاہل بنادے اگر لڑائی کا اندیشہ نہ ہو اور یہ کہہ دے کہ اس سوال کا جواب سمجھنے کے لیے تمہارا فہم نہیں ، (تم نہیں سمجھ سکتے)۔۱؎ بعض لوگ اس حدیث کو پیش کیا کرتے ہیں من سئل عن علم فکتمہ ------------------------------ ۱؎ الدوام علی الاسلام ملحقہ محاسن اسلام ص:۳۹۶۔