آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اس کا حکم معلوم نہ تھا اور یہ کہنے کی ہمت نہ ہوئی کہ مجھے معلوم نہیں ،اس لئے آپ نے شقوق نکالنی شروع کیں تاکہ وہ ساکت ہوجائے ،پس فرمانے لگے کہ گلہری کے گرنے میں کئی احتمال ہیں یاتوخود گری ہے یا کسی نے اس کو گرایا ہے،اگر خود گری ہے تو دواحتمال سے خالی نہیں یاتوآہستہ چل کر گری ہے یا دوڑکر ،اوراگر کسی نے اس کوگرایا ہے تو اس کی بھی دوصورتیں ہیں یاتو اس کوگرانے والا آدمی ہے یاجانور، اور ہر شق کا جداحکم ہے (اتنا جھوٹ بولا)اب بتلاؤ کہ کونسی صورت واقع ہوئی ہے ؟اس نے کہا کہ یہ تو معلوم نہیں ،انہوں نے کہا پھر مسئلہ ویسے ہی پوچھنے چلے آئے جاؤ کام کرو۔ تویہ بڑے متقیوں کا حال ہے ،حالانکہ جناب باری تعالیٰ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں فرمایا وَمَااَنَامِنَ الْمُتَکَلِّفِیْنْ (میں تکلف کرنے والوں میں سے نہیں ہوں ) میں نے بڑے بڑے علماء کے فتوے دیکھے ہیں کہ انہوں نے جواب میں لکھ دیا ہے کہ ہمیں معلوم نہیں ،اب علماء میں یہ مرض عام ہوگیا ہے کہ کسی مسئلہ میں اپنی لاعلمی کا اظہار نہیں کرتے ہیں ، اس وجہ سے اب اگر کوئی کہتا بھی ہے کہ مجھے معلوم نہیں تواس کی بات کا یقین نہیں ہوتا۔ چنانچہ ایک شخص نے مجھ سے ایک مسئلہ دریافت کیا تھا ،میں نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں ،تو انہوں نے شکایت کی کہ مجھ سے خفا معلوم ہوتے ہیں ،جو ایسا کہہ دیا ورنہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ان کو یہ مسئلہ معلوم نہ ہو،توگویا مولوی کو عالم الکل ہونا چاہئے، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تویہ کیفیت تھی کہ آپ باوجود اس علم وفضل کے فرمادیتے تھے کہ مجھے معلوم نہیں ، پھر اور کون عالم الکل ہوسکتا ہے ۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ اتباع المنیب ملحقہ نظام شریعت ص۲۱۲،۲۱۳