آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
عجب نہیں کہ حضرت ابوذررضی اللہ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی لئے یہ مشورہ دیا ہوکہ: لَاتَلِیَنَّ مَالَ یَتِیْمٍ وَلاَ تَقْضِیَنَّ بَیْنَ اِثْنَیْنِ۔(مسلم شریف) یہ حدیث طویل کا ایک جزوہے، اس میں یہ مضمون ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوذرؓ سے فرمایا کہ مجھے تم سے محبت ہے اور میں تمہارے لئے وہی پسند کرتاہوں ( جو اپنے لئے پسند کرتاہوں ) اس کے بعد فرماتے ہیں کہ ایک تو یتیم کے مال کا متولی نہ بننا، دوسرے تم پنچ (فیصل)نہ بننااور اس کی وجہ یہ فرمائی کہ اِنِّیْ اَرَاکَ ضَعِیْفاً کے تم ضعیف ہو، ان کاموں کا تحمل نہیں کرسکو گے، اور عدم تحمل کی وجہ ایک تو یہ تھی کہ نازک تھے پس جب فیصلہ کرنے کے بعد کوئی مخالفت کرے گا تو پریشان ہو جائیں گے اور ان کی مخالفت اور اعتراضات کا تحمل نہ کرسکیں گے، برخلاف اس کے کہ فیصلہ کرنے والا صاحب حکومت ہو جیسے شیخین(یعنی حضرت ابوبکر صدیق ،عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہما) کہ ان کے فیصلے کی اول تو مخالفت نہیں کی جاتی اور اگر کی جائے تو وہ مخالفت کو رفع فرماسکتے ہیں ، برخلاف ایک ایسے بزرگ کے جس کو اختیارات حاصل نہ ہوں کہ وہ مخالفت کو رفع نہیں کرسکتے، پس یہ بھی اس اصل کی ایک فرع ہو سکتی ہے کہ خود غرضی کے ایہام سے بچیں ۔ فقہاء نے ایسا ہی ایک جزیہ لکھا ہے کہ علماء کو گواہی دینا مناسب نہیں اور وجہ یہ لکھی ہے کہ اگر یہ کسی کی طرف سے گواہی دیں گے توفریق مقابل کو ان سے عدوات ہوجائے گی لہٰذا ان کو گواہی دینا مناسب نہیں ہے ،پس فقہاء کے اس قول سے اس امر کی تائید ہوتی ہے کہ علماء کو فیصلہ نہ لینا چاہئے،اور فقہاء نے یہاں تک لکھا ہے کہ علماء کو مناسب نہیں کہ ہر جگہ کی دعوت قبول کرلیں ،پس جب انہوں نے دیکھا کہ عوام کا علماء سے کتنا تعلق ہے اور ان کا منصب کیا ہے تویہاں تک مشورہ دیا کہ ہر جگہ کی دعوت بھی نہ قبول کی جائے اور اس کی وجہ یہ لکھی ہے کہ لوگ دعوت کرکے حقیر سمجھتے ہیں ،اور طلبہ کی دعوت توآج کل اسی خیال پر کرتے ہیں کہ بلائیں دفع ہوں گی ،توگویا طلبہ بلا خوار ہوئے ۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ اتباع المنیب ملحقہ نظام شریعت ص۱۸۰