آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
فتوے بیکار ہوجائیں اور بدنامی بھی ہوکہ کوئی مولوی کچھ لکھتا ہے اور کوئی کچھ لکھتا ہے پس بہتریہ ہے کہ فتویٰ تولیں علماء سے اور اس کو نافذ کرائیں عمائدِ اہل شہر سے کیونکہ فیصلہ کرنا عمائد اور اہل اثر کا کام ہے میں نے یہ معمول اختیار کیا ہے ۔ فیصلہ لینے میں ضرریہ دیکھا کہ جب دوفریق باہم مخالف ہوکر فیصلہ کے لئے قضیہ لائیں گے تو ضروری بات ہے کہ فیصلہ ایک کے موافق ہوگااور دوسرے کے خلاف، تو بعض اوقات تو وہ فیصلہ واقع کے موافق ہوتا ہے اور بعض مرتبہ واقع کے خلاف ہوتا ہے ،کیونکہ فیصلہ کرنے والا عالم الغیب تونہیں ہے کہ اس کو صحیح واقعات کاعلم ضروری ہو،پس ممکن ہے واقعات اس فیصلہ کرنے والے سے مخفی رہیں اور معلوم نہ ہوسکیں ، ہرچند کہ ایک فریق ظاہر کرتا ہے مگر دلیل نہ ہوسکنے کی وجہ سے قابل اعتبار نہیں ہوتا پس اگر فیصلہ واقعات کے خلاف ہوا تو عوام گالیاں دیتے ہیں کہ یہ کیا اندھوں کی طرح فیصلہ کیا ہے، بس معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے ان کی سفارش کردی ہے اس وجہ سے ایسا فیصلہ کردیا ،سویہ نتیجہ ہوتا ہے اور ہارنے والے کو اس روز سے اس مقتداء سے دینی تعلق کم ہوجاتا ہے جس سے اس کا دینی ضررہوا، اگر فیصلہ واقعات کے خلاف ہے تب تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے اور اگر واقعات کے مطابق بھی ہو جب بھی اکثر لوگ اس فیصلہ کرنے والے کو ایک فریق کے ساتھ ضرور سمجھتے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جہاں اس کا دینی اثر ہونا ممکن تھا وہاں بھی یہ لوگ اس میں کھنڈت ڈالتے ہیں اور ان کو اس کی طرف سے بدگمان کرتے ہیں ۔ ایک ذرا سے فائدہ کے لئے کہ فیصلہ کرنے سے ہمارا لوگوں میں اثر ہوگا جس سے دینی کام لیں گے ،بہت لوگوں کو اپنے سے بدگمان کرلیا اور ان پر جو دینی اثر ہوتا اس کو غارت کردیا۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ اتباع المنیب ملحقہ نظام شریعت ص۱۷۷