آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اس کی ذات تک محدود ہوتا ہے کہ وہ گناہ کرے گا تو اس کا نتیجہ خود ہی بھگتے گا، دوسرے تک اس کااثر نہیں پہنچتا اور ایک گناہ عالم کا ہوتا ہے جو متعدی ہے وہ محض اس کی ذات تک محدود نہیں ہوتا بلکہ دوسروں تک اس کا اثر پہنچتا ہے،یہ دین فروش خود تو گنہگار ہوا ہی دوسرے کو بھی ڈبویا،اور ساس کو کسی نہ کسی طریقہ سے پھیر پھار کرکے جائزکرہی دیا اور ویسے نہیں بلکہ شرعی دلیل سے، اب وہ دلیل سنئے! ساس کی حرمتِ قطعیہ اس لفظ سے ثابت ہے وَاُمَّہَاتُ نِسَائِ کُمْ اس کے معنی ہیں کہ: تمہاری بیبیوں کی مائیں بھی تم پر حرام ہیں ،بی بی کی ماں کو ساس کہتے ہیں اس سے ساس کی حرمت ثابت ہوئی اس نے اس میں ایک مقدمہ قائم کیا وہ یہ کہ ساس کہتے ہیں بی بی کی ماں کو اور بی بی کس کو کہتے ہیں ؟ جس سے نکاح صحیح ہو اہو ، اب یہ دیکھنا ہے کہ بیوی سے تمہارا نکاح صحیح ہواتھا یا نہیں سواس میں کلام ہے کیونکہ نکاح صحیح جبھی ہوتا ہے جب مرد وعورت دونو ں مسلمان ہوں یا بی بی کتابیہ ہو غرض مشرک نہ ہو اور تمہاری بی بی جاہل ہے ،یہ دریافت کرلیا تھا کہ وہ جاہل ہے اور یہ بھی پوچھ لیا تھا کہ نکاح کے وقت کلمہ وغیرہ نہیں پڑھایا گیا تھا ،بس اب معاملہ درست ہوگیا اور گنجائش نکل آئی اس طرح سے کہ جاہل بسا اوقات کلماتِ کفر کے بک دیاکرتے ہیں پھر نکاح کے وقت کلمہ بھی نہیں پڑھایا گیا جس سے کفر کا ازالہ ہوجاتا ،غرض نکاح کے وقت بی بی کاایمان ثابت نہیں اور نکاح میں ایمان شرط ہے جب یہ شرط نہ پائی گئی تو نکاح بھی صحیح نہیں ہوااور جب نکاح صحیح نہیں ہوا تو وہ منکوحہ بھی نہ ہوئی جب وہ منکوحہ نہ ہوئی تو اس کی ماں ساس بھی نہ ہوئی بلکہ ایک اجنبی عورت ہے لہٰذا اس سے نکاح جائز ہے ۔ دیکھئے پھیر پھار کرکے کس طرح دلیل سے اس کو جائز کردیا ۔ کتنا بڑاکام بن گیا، ایک شخص کا دل خوش ہوگیا اور اس وقت گناہ سے بھی بچ گیا، عاقبت کی خبر خدا جانے، دیکھئے حضرات یہ عالم ہیں جنہوں نے اتنا بڑا کام کیا ، (بڑا تو کیا یوں کہئے کہ سڑاکام