آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
خود کتابیں دیکھنا شروع کیں ، جو ئندہ یابندہ مسئلہ مل گیا ان کی خواہش کے موافق ،ایک کتاب مل گئی ،وہ ترجمہ ہے کسی کتاب کا ایک مسٹر کا کیاہوا،سنئے گا تو معلوم ہوگا کہ اس میں کیا گت بنی مسئلہ کی۔ اندھے کی کھیر والا قصہ ہوگیا کہ ایک مادر زادنابینا تھے لڑکوں کو پڑھایا کرتے تھے ایک دن ایک لڑکے نے کہا حافظ جی آج ہمارے یہاں آپ کی دعوت ہے ،کہا کیا کھلاؤگے ؟کہا کھیر کہا کھیر کیسی ہوتی ہے؟ کہاسفید کہنے لگے سفید کس کو کہتے ہیں ؟ کہا جیسے بگلا پوچھا بگلا، کیساہوتا ہے؟ لڑکے نے ہاتھ کھڑا کرکے اور پونچے کو جھکاکراس کی شکل بناکر بتایا کہ بگلا ایسا ہوتا ہے، حافظ جی نے ٹٹولا تو ہاتھ کھڑا ہوا اور ٹیڑھا معلوم ہوا،کہا میں دعوت قبول نہیں کرتا ،ٹیڑھی کھیرکیسے کھاؤں گا ،یہ حلق میں کیسے اترے گی ،دیکھئے کھیر کی شرح کی گئی سفید ی اور سفید کی بگلے سے اور بگلے کی ٹیڑھے ہاتھ سے تو نوبت کہاں تک پہنچ گئی کہ حافظ جی کھیر سے ڈر گئے کہ ایسی ٹیڑھی کھیر کیسے کھائی جائے گی ،کیا گت بنی کھیر کی ، یہی گت بنی ہے دین کی آج کل کے ترجموں سے ۔ غرض وہ حضرت وہ ترجمہ لے کر میرے پاس آئے کہ اس میں ایک فصل اس بیان میں تھی کہ فلاں فلاں شخص کی طلاق نہیں پڑتی منجملہ ان کے اس میں لکھا تھا کہ متعجب کی طلاق نہیں پڑتی پھر اس شخص کو جس نے طلاق دی تھی تعجب بنانے کیلئے ایک واقعہ بیان کیا کہ طلاق کی بناء یہ ہوئی ہے کہ میاں بی بی اور ماں میں کسی بات پر جھگڑا ہوا ماں نے میاں سے شکایت کی اس کو بی بی کی اس خلافِ توقع حرکت پر تعجب ہوا اور تعجب کی حالت میں طلاق دے دی تو تعجب کی حالت میں طلا ق دی گئی اور کتاب کھول کر دکھائی کہ بحالت تعجب طلاق واقع نہیں ہوتی، میں نے کہا یہ مسئلہ بالکل غلط لکھا ہے اور لطف یہ کہ حوالہ بھی فقہ کی کتابوں کا دیا ہوا ہے ،پھر میں نے غور کیا تو سمجھ میں آیا کہ حوالہ تو