آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ہے ثُمَّ یَفْشُوالْکِذْبُ کہ خیرالقرون کے بعد کِذب(جھوٹ) پھیل جائے گا اور لوگوں کی حالت بدل جائے گی سو جتنا خیرالقرون سے بُعد(فاصلہ زیادہ) ہوتا گیا اتنی ہی لوگوں کی حالت ابتر ہوتی گئی ،اب تو وہ حالت ہوگئی ہے کہ عام طورپر غرض پرستی غالب ہے ،اب مختلف لوگوں سے اس لئے پوچھا جاتا ہے کہ جس میں اپنی غرض نکلتی ہوگی اس پرعمل کریں گے۔۔۔۔۔۔ جیسے کہ مجتہدین کی تقلید شخصی میں یہ حکمت ہے اسی طرح اس مذہب کے علمائِ اخیار میں سے ایک ہی(عالم ومفتی یادارالافتاء کومسئلہ پوچھنے اور فتویٰ لینے کے لئے) متعین کرلینے میں یہی حکمت ہے کیونکہ زمانہ کی حالت بدل گئی ہے کہ لوگوں میں غرض پرستی غالب ہے ،اور ایک مذہب کے علماء میں بھی آپس میں مسائل کے اندر اختلاف ہے پس اگر ایک عالم کو متعین نہ کیاجائے گا ، تو اس کے اندر بھی اندیشہ ہے کہ کہیں غرض پرستی میں نہ پڑجائیں کہ جس عالم کی رائے نفس کے موافق ہوئی اس کو مان لیا اور جس کی رائے نفس کے خلاف ہوئی اس کو نہ مانا ،اور اس اختلاف علماء ہی کی وجہ سے عام لوگ یہ شبہ کرنے لگے ہیں کہ صاحب ہرمولوی کی جدارائے ہے، ہم کدھر جائیں ؟ مگر اس کا تومیرے پاس ایسا جواب ہے کہ اس کا کسی سے ردہی نہیں ہوسکتا۔ وہ یہ کہ طبیب کے پاس بھی توآخر جاتے ہی ہو ان میں بھی توآپس میں اختلاف ہوتا ہی ہے ، تو جس طرح ان کاموں میں ایک کو منتخب کرلیتے ہو،اسی طرح یہاں کیوں پریشانی ہے کہ کس کا کہنا مانیں ،اس کا بھی یہی انتظام کرلو کہ ایک عالم اور ایک شیخ کو منتخب کرلو ،پس ہر شخص کو اکثر دوآدمیوں کے متعین کرنے کی ضرورت ہوگی،ایک عالم کی اور ایک شیخ کی ،کیونکہ کئی چیزوں کی ضرورت ہے ،ایک اعمال صالحہ کی اور ایک اس کی تکمیل کی ،پس دوشخصوں سے تعلق پیداکرو، عالم سے تو اعمال صالح سیکھواور شیخ سے اس کی تکمیل کرواور اگرکوئی جامع مل جائے جس سے دونوں چیزیں حاصل ہوجائیں توخوش قسمتی ہے، اگر پریشانی سے اپنی نجات چاہتے ہو تو ایساکرو،اور اس کی ہی سخت ضرورت ہے ۔