آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
دوچار طبیب اور دوچار وکیل قابل اطمینان ضرورمل جاتے ہیں اور وہ سب قابل اعتماد ہوتے ہیں لیکن اس وقت بھی آپ سوائے اس کے اور کچھ نہیں کرتے کہ ان سب قابل اعتماد لوگوں میں سے ایک کوچھانٹ کر علاج اور مقدمہ کی پیروی اس کے سپرد کردیتے ہیں اور مطمئن ہوجاتے ہیں کہ طبیب یاوکیل تو ہم نے کامل اور قابل اطمینان ڈھونڈ لیا ہے اب صحت ہونا یا پھانسی کے مقدمہ سے بری ہونا تقدیر کے اوپر منحصر ہے ،اسی طرح دین کے لئے جتنی کوشش آپ کے امکان میں ہے وہ کرکے علماء حقانی کو تلاش کرلیجئے اور ان کے اختلاف کی صورت میں کسی ایک کے قول کو لے لیجئے جس کے متعلق دل زیادہ گواہی دیتاہو،اور بلاچون وچرااس قول کا اتباع کرلیجئے ۔ (خلاصہ یہ کہ)اگرعلماء میں اختلاف ہو تو آپ کو گنجائش ہے کہ اس مسئلہ میں کسی کا بھی اتباع کرلیں یہ اختلاف برا نہیں بلکہ عنداللہ دونوں مقبول اور ماجور ہیں ۔حق تعالیٰ کے یہاں دونوں اسی طرح ماجور ہیں جیسے جہت تحری کی طرف دونوں مختلف سمتوں کے نماز پڑھنے والے کہ کسی پر ملامت نہیں ،غرضیکہ علماء کا ایسا اتباع بعینہٖ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع ہے اور علماء حضور کے نائب ہیں اور یہ بات میں پہلے بھی کہہ چکاہوں اور اب پھر یاددلاتاہوں کہ علماء سے مراد علماء حقانی ہیں کیونکہ علماء بھی دوقسم کے ہیں ایک علماء حقانی دوسرے علماء شیطانی علماء حقانی کے کچھ اوصاف میں اوپر بیان کر آیاہوں مختصر اپھر بھی بیان کئے دیتاہوں علماء حقانی وہ ہیں جو اپنی رائے اور اغراض کو حق تعالیٰ کے حکم کے سامنے بالکل فنا کرچکے ہوں اور ان کے نزدیک اس حکم کے مقابلہ میں دنیا ومافیہا کی کوئی حقیقت نہ ہو ۔ بس خلاصہ تمام اوصاف کا یہ ہے اور جو اپنی اغراض وہوائے نفسانی کے بندے ہوں وہ اس قابل بھی نہیں کہ ان کو عالم کہا جائے ، حق بات وہ کبھی کہہ ہی نہیں سکتے ،بلکہ وہ حق بات کو سمجھ بھی نہیں سکتے کیونکہ جب تک اغراض باقی رہتے ہیں توعلم