آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ایسی ہی تھی جیسی ہمارے لئے اردو اس وقت کسی کو یہ اعتراض نہ سوجھا تم ہی بڑے روشن دماغ ہو اور سب کے دماغوں میں اندھیرا ہی ہے، اور دینی کتابوں کا توان کو انتظام سوجھ رہا ہے مگریہ جوانگریزی کی(مخلوط) تعلیم ہورہی ہے اور عورتوں کے متعلق بے پردگی کی کوشش کی جارہی ہے، پروفیسری اور ڈاکٹری کی تعلیم عورتوں کو دی جارہی ہے اس کا انہوں نے کیا انتظام سوچا ہے،بددینوں کو دین ہی میں ساری احتیاطیں سوجھتی ہیں ، اصل بات وہی ہے جو میں کہہ چکاہوں کہ دین کو غیرضروری اور دنیا کوضروری سمجھتے ہیں ،اگر دنیا کی طرح دین کو بھی ضروری سمجھتے توکبھی اعتراض ہی دل میں پیدانہ ہوتا،اب ان واقعات کو پیش نظر رکھ کرکیا کوئی مشورہ دے سکتا ہے کہ ان بیہودوں کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کیا جائے ،اگران کو محض خیرخواہی مقصودہوتی اور تہذیب سے بزعم خود اس کے نامناسب ہونے پر مطلع کیا جاتاتو اس کا عنوان اور تھا اور اس کا جواب بھی ویساہی ہوتا یہ تومحض شرارت ہے سواس کا جواب بھی ایسا ہی ہوگا۔ اب میں ان کے خط کا جواب لکھتا ہوں یہ فرماکر جواب تحریر کرکے اہل مجلس کومخاطب کرکے فرمایا کہ میں نے جواب لکھ دیا ہے کہ لڑکیوں کو ناول پڑھائے جاتے ہیں کبھی اس پر بھی شبہ ہوا؟فن موسیقی سکھایا جاتاہے اس پر شبہ نہ ہوا؟پردہ اٹھایاجاتا ہے اس پر شبہ نہ ہوا؟ ٹھیٹروں میں لڑکیوں کولے جاتے ہیں وہاں ہرقسم کی تصویریں عاشقی معشوقی کی دکھائی جاتی ہیں وہا ں شبہ نہ ہوا؟ اور اگر ہواتو اس کے ازالہ کی کیاتدابیر سوچیں اور کس اخبار یااشتہار کے ذریعہ اس سے اظہار نفرت کیا؟ یاکسی کو بذریعہ خط ان مذموم حرکات کی اطلاع دی؟ پہلے اس سے مطلع کروتب میں بہشتی زیور کے اعتراض کا جواب دوں گا اس پر فرمایا کہ ایسے خردماغوں کو ایسا ہی جواب دینا چاہئے تاکہ معلوم ہو کہ خالی ہم ہی خرِدماغ نہیں مولویوں میں بھی اسپِ دماغ ہیں ، اور جب مخاطب کوڑمغزاور بدفہم ہو تو وہاں حکیمانہ جواب کا رآمد نہیں ہوتا ، حاکمانہ جواب نافع ہوتا ہے یہی طرز قرآن