آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
میں ان کی عظمت ہو اوران کی عظمت سے مضمون کی عظمت ہو ، مجھے اس منشاء پراعتراض نہیں اور میں اس کے حسن وقبح(اچھائی برائی) سے اس وقت بحث نہیں کرنا چاہتا ،میں تسلیم کئے لیتاہوں کہ علماء کو عمدہ لباس پہن کرہی وعظ کہنا چاہئے ،مگر سوال یہ ہے کہ عمدہ لباس آئے کہاں سے ؟ ہمارے پاس اتنا روپیہ نہیں جو آپ کی تجویز اور منشاء کے موافق لباس بنائیں تو اس صورت میں اتنا روپیہ کہا ں سے آئے زیادہ روپیہ حاصل کرنے کے جو ذرائع ہیں وہ دوقسم کے ہیں ، بعض توشرعاً قبیح ہیں جن کو ہم جائز نہیں سمجھتے جیسے ڈپٹی کلکٹری ،اور بعض عقلاً بھی قبیح ہیں جن کو نہ ہم جائز سمجھتے ہیں اور نہ آپ جیسے وعظ کہہ کر اپنی حاجت پیش کرنا ،جب یہ دونوں ذرائع ناجائز ہیں صرف ایک ذریعہ ہی رہ گیا کہ ہم میں کوئی مدرس ہے کوئی مصنف کوئی محشی کوئی کسی مطبع کا مضحح تو اس صورت میں ہماری مالی حیثیت اسی لباس سے ہوگی جس کو پہنے ہوئے ہیں ،اور اس سے زیادہ حیثیت بھی ہوتی تب بھی ہم کو کیسے معلوم ہوتا کہ آپ کی منشاء کے موافق کس قیمت کا لباس ہونا چاہئے، ممکن ہے کہ ہم اس موجودہ لباس سے بڑھیا (عمدہ) لباس پہن کر آئیں اور آپ کی نظر میں وہ بھی حقیر ہو اس لئے اس کی آسان صورت یہ ہے کہ معترض صاحب اپنی منشاء کے موافق نہایت قیمتی جوڑے ہمارے لئے بنادیں تاکہ جب تک ہم شملہ میں رہیں اسی لباس کو پہن کروعظ کہا کریں اور اس کا ہم وعدہ کرتے ہیں کہ جب شملہ سے جانے لگیں گے وہ لباس آپ کے حوالے کرجائیں گے اپنے ساتھ نہ لے جائیں گے ،تاکہ ہمارے بعد کوئی اور مولوی وعظ کہنے آئے تو آپ اس کو بھی وہ لباس دے سکیں کہ مولانا یہ کپڑے پہن کر وعظ فرمائیے، اس میں آپ کا مقصود بھی حاصل ہوجائے گا کہ سامعین وعظ کی نظروں میں قیمتی لباس کی وجہ سے علماء کی عظمت ہوگی اور ہم بھی خرچ کے بارے میں سبکدوش رہیں گے،اور آپ کا بنایاہوا لباس پھر آپ کے پاس واپس آجائے گا ، آپ کو ہر مولوی کے واسطے باربار جوڑا تیار نہ کرنا پڑے گا ، ایک دفعہ کا بنایا ہوا برسوں کام دے گا، اورغالباً معترض صاحب میں اتنی وسعت توضرور ہوگی کہ ایک دفعہ ہمارے لئے قیمتی