آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
کوئی چیز نہیں اور نہ ہم کو اس قسم کے تصرف کا حق ہے، آپ بھی صاف بیان کریں جس وقت آپ سمجھادیں گے میں بھی انشاء اللہ تسلیم کرلوں گا۔ سوال: موجودہ صورت نصوص کے کلیہ میں تو داخل نہیں ہوسکتی، لیکن یہاں پر قیاس سے کام لیا جاسکتا ہے۔ جواب: فرمایا: نص کے ہوتے ہوئے قیاس اور اجتہاد کیجئے، میں کب منع کرتا ہوں مجھے تو بحمد اﷲ کھلی آنکھوں نظر آتا ہے کہ یہ حق ہے اور یہ باطل۔ سوال: اسی لیے تو دریافت کیا جارہا ہے۔ جواب: فرمایا: اگر آپ کو شرح صدر ہو تو آپ عمل کیجئے یہی سمجھ لیجئے کہ مجھ کو شرح صدر نہیں ، مجھ کو اپنے فتوے میں شریک نہ کیجئے اور نہ مجھ سے امید رکھئے کہ میں منصوصات کے خلاف کروں یا اجتہاد کروں ، میں تو کٹر مقلد ہوں صاحبین کا قول بھی کہیں اضطرار میں لے لیتا ہوں ورنہ میں تو امام صاحب کے مذہب پر عمل کرتا ہوں ، آپ کی تو بھلا کیا تقلید کرسکتا ہوں آپ تو بچے ہیں اور میں بڈھوں کا مقلد ہوں ، پھر مزاحاً فرمایا کہ نہیں بڈھوں کا نہیں بلکہ ایک بڈھے کا۔ سوال: لڑتو سکتے نہیں پھر کیا صورت ہو؟ جواب: جو میں عرض کررہا ہوں وہ منصوص ہے اسی پر عمل کریں ، یعنی قدرت کو دیکھ لیں ، اگر قدرت اور قوت ہے تو بجائے جتھے بھیجنے کے قتال کریں جہاد کریں ، تلوار ہاتھ میں لیں لڑیں اور اگر قدرت نہیں جیسا کہ ظاہر ہے صبرکریں ، نیز عجز کی صورت میں یہ بھی ہوگا کہ آئندہ اگر کوئی ضررپیش آیا تو اس کے برداشت کی بھی قوت نہ ہوگی اور جس ضرر سے بچنے کی قوت نہ ہو یا مشکل ہو اس میں نہ پڑنا چاہئے۔ سوال: (آیت جہاد میں )’’ مِنْ قُوَّۃٍ‘‘ نکرہ ہے اس وقت جیل جانے کی قدرت ہے۔ جواب: قدرت سے یہ قدرت مراد نہیں بلکہ وہ قدرت جس میں خصم کا کوئی ضرر ہو