آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
لیے کوئی استحقاق مقرر کردے مگر پھر بھی وقف خالص عبادت رہے گا معاملہ نہ ہوگا، جیسے زکوٰۃ خالص نفع عباد کے لیے ہی موضوع ہے، دوسرے مصارف مساجد وغیرہ میں صرف نہیں ہوسکتی، بخلاف وقف کے کہ وہ ان مصارف میں بھی شرط واقف کے موافق صرف ہوسکتا ہے، جس سے ثابت ہوا کہ زکوۃ کا تعلق عباد کے ساتھ بہ نسبت وقف کے زیادہ مگر باوجود اس کے زکوٰۃ خالص عبادت ہے معاملہ نہیں پس وقف خالص عبادت ہونے میں زکوٰۃ سے بھی زیادہ ہے۔ (نمبر۳)جب وقف مثل زکوٰۃ کے بلکہ زکوٰۃ سے بھی زیادہ خالص عبادت ہے اس میں کسی خرابی کا ہونا ایسا ہوگا جیسے زکوٰۃ میں کسی خرابی کا ہونا، اور اس خرابی کی اصلاح کے لیے گورنمنٹ کا دخل دینا ایسا ہوگا جیسا زکوٰۃ کی خرابی کی اصلاح کے لیے گورنمنٹ کا دخل دینا۔ (نمبر۴)اور زکوٰۃ میں ایسا دخل دینا یقینا دخل فی المذہب ہے اسی طرح وقف میں دخل دینا دخل فی المذہب ہوگا خواہ خود دخل دیا جائے خواہ کسی کی درخواست پر دخل دیا جائے، باقی یہ سوال کہ پھر وقف کی خرابیوں کا کیا انسداد ہو، ایسا ہے جیسا یہ سوال کیا جاوے کہ اگر کوئی نماز یا روزہ یا حج یا زکوٰۃ میں کوتاہی کرے اس کا کیا انسداد ہے، کیا اس کے جواب میں کوئی شخص یہ تجویز کرسکتا ہے کہ گورنمنٹ کو ان کوتاہیوں پر جرمانہ وغیرہ مقرر کرنے کا حق ہے؟ ہرگز نہیں بلکہ اس کا انتظام مسلمان بطور خود کرسکتے ہیں خواہ اس کو افہام تفہیم کریں ، خواہ اس کو تولیت سے معزول کریں ، جب کہ واقف نے ان کو اس قسم کے اختیار دئیے ہوں ، خواہ اس سے قطع تعلق کریں اور ایسا نہ کریں تو ان کی کوتا ہی ہوگی، گورنمنٹ کو پھر بھی دخل دینے کا حق نہیں ۔ نوٹ: نگرانی وقف کے متعلق جو سوالات دائر سائر ہیں وہ اس پر مبنی ہیں کہ وقف عبادت نہ ہو، جب اس کا عبادت ہونا محقق ہوگیا اب ان سوالات کی گنجائش نہ رہی، اس لیے ان کے جوابات کی بھی حاجت نہیں رہی۔