آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
ہوگا کہ منکر کو خاص بطریق قطعی پہنچا نہیں اور علم اجمالی کا فی نہ ہو، اور صحیح قراء ت میں کوئی اعرابی یا معنوی اشکال ہو اور اس کا التزام کوئی نہیں کرسکتا۔(اشرف علی) الجواب: مخدومی مکرمی مداﷲ ظلال مجدکم، السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ جواب عرض کرتے ہوئے شرم آتی ہے کہ آپ بحمداﷲ ان علوم عالیہ میں ماہر ہیں اور میں گویا ناواقف ہوں مگر امتثالا للامر جو کچھ صحیح یا غلط خیال میں گذرا ہے مختصراً عرض کرتا ہوں اگر غلط ہوا توتصحیح ہی ہوجائے گی، بندہ کے خیال میں یہ مضمون ہے کہ قرآن کی قطعیت کی دو صورتیں ہیں ، اول تو بلا واسطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تلقّی، دوسرے تواتر ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے تو دونوں صورتوں سے قطعیت ہوسکتی تھی اور تابعین اور مابعد ہم کے لیے صرف تواتر کی صورت باقی رہی، صحابہ نے جس آیت یا حرف کوبلا واسطہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن لیا ان کے لیے قطعی ہوگیا، بعد ازاں اگر آئندہ ان سے بطور تواتر مروی ہوتا گیا قطعیت ہوتی رہی اور جس جگہ سلسلہ تواتر منقطع ہوگیا قطعیت بھی منقطع ہوگئی، تو اب مواضع مبحوث فیہا میں ممکن ہے کہ حضرت عائشہ وغیرہا کووہ طریق جو اب متواتر ہے یعنی والمقیمین وغیرہ نہ پہنچا ہو اور دوسری طرح یعنی والمقیمون وغیرہ بلا واسطہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہو تو ان پرواجب نہ تھا کہ وہ قراء ت متواترہ کی تلاش کرتیں ، کیونکہ قطعی قراء ت ان کو حاصل تھی، اور اسی وجہ سے کہ غیر قرآن قرآن سے ممتاز رہے اس کا انکار فرماتی تھیں ، غایۃ مافی الباب ان کے بعد چونکہ ان سے سلسلہ تواتر نہ چلا لہٰذا ان کے بعد کے لیے قطعیت نہ رہی چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کوبطور قطع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کُذِّبوا بالتشدید معلوم ہوچکا اور بالتخفیف نہ بتواتر نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بلا واسطہ معلوم ہوا تھا، لہٰذا انکار فرمایا اور اتفاقا ًبالتشدید بھی بعد ازاں متواتر رہا، اگر بالفرض