آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
الاعضاء یا غیر مستبین الاعضاء ان دونوں کی مساوات روایات سے مفہوم نہیں ہوتی، اور روایۃ ترمذی وابو داود جس کے الفاظ یہ ہیں ، فمر براس التمثال الذی علی باب البیت امر یقطع فیصیر کہیئۃ الشجرۃ۔(ابوداؤد ،بذل المجہودص ۷۰ج۵ ،ترمذی ص۱۰۴) اس امر کے اوپر دلالت کرتی ہے کہ بعد قطع رأس تصویر ذی روح کی باقی نہیں رہتی، بلکہ وہ کالشجرۃ ہوجاتی ہے حالانکہ وہ تصویر ظاہراً حیوان ہی (کی) تصویر معلوم ہوتی ہے ، اور مضاہاۃ بخلق اللہ جو علۃ حرمت ہے متحقق معلوم ہوتی ہے، اور نیز مخصوص رأس کا مختلف فیہ ہونا بھی اس پر دلالت کرتا ہے کہ جب بعض اجزاء اصلیہ مفقود ہوگئے تو وہ تصویر ذی روح کی تصویر نہ رہی، رد المحتار میں ہے وفیہ اشعار بانہ لا تـکرہ صورۃ الرأس وفیہ خلاف کما فی اتخاذہا کذا فی المحیط(ص۴۳۵ج۱) معلوم ہوتا ہے کہ بعض فقہاء نے ایسے جزو کا حکم (مثل) کل (کے) قرار دیا ہے اور ذی روح قرار دے کر اس کو منع کیا ہے اور بعض نے اس کو غیر ذی روح قرار دیا ہے اور جائز فرمایا، بندہ کے نزدیک ایسے اختلاف کی صورت میں اس خلاف کو نزاع لفظی پرمحمول کیا جائے اور حرمت کا محمل عام اس کو قرار دیا جائے کہ جب قصداً کسی ذی روح کی تصویر پشت کی جانب سے لی جائے تو بروئے اطلاق روایات ناجائز ہو اور جب کہ تصویر کا لینا مقصود نہ ہو مثلاً کسی مکان یا جنگل یا پہاڑ کی تصویر لینی مقصود ہے اور پشت کی جانب سے کسی انسان کی تصویر آگئی یا اس قدر صغیر ہے کہ جو قریب سے بھی بدشواری فہم میں آتی ہے گویا مقدار طیر سے بھی کم ہے تو ایسی صورت میں جائز کہہ دیا جائے (تو) بظاہر کچھ مضائقہ نہیں ۔ فقط واللہ اعلم بالصواب حررہ خلیل احمد عفی عنہ ۱؎ ------------------------------ ۱؎ امداد الفتاوی ص:۳۲۹تا۳۳۲ ج۶،فتاویٰ خلیلیہ ص:۲۴۷ تا۲۵۲