آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
تعجب ہے مگر بمقتضائے حُبُّکَ الشَّیئَ یُعْمِیْ ویُصِمُّ ایسے شبہات کا ورود عجب نہیں ۔ بغور دیکھو کہ مقیس علیہ خود ذکر ہے کہ مطلق ذکر مامور بہ کافرد ہے اوراس کے ملاحظات و ہیئات یا ذکر ہیں یا وہ امور ہیں کہ نص سے ان کی اصل ثابت ہے پس وہ ملحق بالسنۃ ہیں ، اور بضرورت موقوف علیہ مقصود کے تخصیص وتعیین ان کی کی گئی اور عوام تو کیا خواص میں بھی صدہا میں معدود شخص عامل ہیں لہذا عوام کے ضرور سمجھ جانے کا وہاں محل نہیں اور مقیس میں جو قیود مجلس ہیں بعض موہم شرک ہیں اور بعض امور در اصل مباح مگر بسبب اشاعت ہر خاص و عام کے ملوث بہ بدعت ہوکر ممنوع ہوگئے کہ عوام ان کو ضروری بلکہ واجب جانتے ہیں اور مجالس مولود میں جس قدر عوام کو دخل ہے خواص کو نہیں اور یہ قیود مذکورہ غیر مشروعہ موقوف علیہ محبت کے ہرگز نہیں آپ خود معترف ہیں ۔ پس اس کو موقوف مقیس علیہ کے ساتھ کیا مناسبت اور داعی عوام کو سماع ذکر کی طرف ہونا اس وقت تک جائز ہے کہ کوئی منع شرعی اس کے ساتھ لاحق نہ ہو ورنہ رقص و سرور زیادہ تر داعی ہیں اور روایات موضوعہ زیادہ تر موجب محبت گماں کی جاتی ہے۔ پس کون ذی فہم بعلت دعوت عام ان کا مجوز ہوجائے گا یہ جواب آپ کی تقریر کا ہے کہ سماع ذکر ولادت بہ ہیئت کذائیہ کوآپ از دیاد محبت تصور کرتے ہیں اور بذریعہ غیر مشروع کے تحصیل محبت کی اجازت دیتے ہیں ، ورنہ فی الحقیقت جو امر خیر کہ بذریعہ نامشروعہ حاصل ہو وہ خود ناجائز ہے اور جو کچھ بندہ کا مشاہدہ ہے وہ یہ ہے کہ مولود کے سننے والے اور مشغوف مجالس مولود صدہا ہوتے ہیں کہ ان میں ایک بھی سنت کا متبع اور محب نہیں ہوتا اور عمر بھر مولود سننے سے محبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و محبت سنت ذرہ بھر بھی ان کے دل میں پیدا نہیں ہوتی، بلکہ بے اعتنائی عبادات اور سنن سے بے حد ان کے جی میں آجاتی ہے اور اگر تسلیم کیا جائے کہ آپ کی محفل میلاد خالی ہے، جملہ منکرات سے اور کوئی امر نامشروع اس میں نہیں ہے تو دیگر مجالس