آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
چوتھا خیال ایک اور پیدا ہوا کہ سب کچھ سہی مگر خصوصیات بعض قواعد و اصول فقہ حنفی کے خلاف معلوم ہوتے ہیں مگر یہی امران خصوصیات اعمال و اشغال میں بھی معلوم ہوا بلکہ ذکر جہر وغیرہ تو امام صاحب کے قول کے صریح خلاف ہے مگر باوجود ان سب قصوں کے جب خصوصیات طرق سلوک شائع و ذائع ہیں تو اس سے یوں سمجھ میں آیا کہ تخصیص وہی بدعت ہوگی جو عقیدتاً ہو اور التزام بھی وہی ممنوع ہوگا جس کے ترک پر شرعی حیثیت سے ملامت ہو اور عوام کا شبہ خواص کے حق میں اس عمل کو بدعت نہ بنادے گا اور بعض اصول حنفیہ کی مخالفت شرع کی مخالفت نہ سمجھی جائے گی۔ ان خیالات کے ذہن نشین ہونے سے ان خصوصیات کے انکار میں کمی پیدا ہوئی، اس کے مرتبہ فروع و اصول مسائل اختلافیہ کا سا آنے لگا، مگر اس کے ساتھ ہی نہ کسی دن ان اعمال کی وقعت ذہن میں آئی نہ خود رغبت ہوئی نہ اوروں کو ترغیب دی، بلکہ اگر کبھی اس قسم کا تذکرہ آیا تو یہی کہا گیا کہ اولیٰ یہی ہے کہ خلافیات سے بالکل اجتناب کیا جائے مگر جس جگہ میرا قیام ہے وہاں ان مجالس کی کثرت تھی اور بے شک ان لوگوں کو غلو بھی تھا۔ چنانچہ ابتدائی حالت میں اس انکار پر میرے ساتھ بھی لوگوں نے مخالفت کی مگر میں نے اس کی کچھ پرواہ نہ کی تین چار ماہ گذرے تھے کہ حجاز کا اول سفر ہوا، تو حضرت قبلہ نے خود ہی ارشاد فرمایا کہ اس قدر تشدد و انکار مناسب نہیں ہے جہاں ہوتا ہو انکار نہ کرو، جہاں نہ ہوتا ہو ایجاد نہ کرو، اور اس کے بعد جب میں ہند کو آیا تو طلب کرنے پر شریک ہونے لگا اور یہ عزم رکھا کہ ان لوگوں کے عقائد کی اصلاح کی جائے۔ چنانچہ مختلف مواقع و مجالس میں ہمیشہ اس کے متعلق گفتگو کرتا رہا اور جتنے امور اصل عمل سے زائد تھے سب کا غیر ضروری ہونا اور ان کی ضرورت کے اعتقاد کا بدعت ہونا صاف صاف بیان کرتا رہا حتی کہ اس وقت میری رائے میں ان کا عقیدہ بعض کا عین توسط پر بعض کا قریب توسط کے آپہنچا مگر بوجہ قدامت عادت کے عمل کے