آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
مشہورحدیث شفاعت کی ہے اس سے ہم لوگوں کو سبق لینا چاہئے اور ذرا زبان اور قلم کو قابو میں رکھنا چاہئے وہ حدیث یہ ہے کہ قیامت کے دن جب شفاعت کی اجازت ہوگی تو سب علی قدر مراتب شفاعت کریں گے،انبیاء علیہم السلام بھی کریں گے اور امتی بھی جب سب کی شفاعت ختم ہوجائے گی تو حق تعالیٰ فرمائیں گے کہ انبیاء بھی شفاعت کرچکے اور ملائکہ بھی کرچکے، اب ارحم الراحمین باقی ہیں ،یہ فرماکردولپ بھر کر دوزخیوں کو جنت میں داخل کردیں گے۔۔۔۔۔۔یہاں مقصود یہ ہے کہ حق تعالیٰ نے بہت سے ان دوزخیوں کو جہنم سے نکالیں گے جن کو نہ امتیوں کی شفاعت پہونچی ہوگی،نہ ملائکہ کی ، نہ انبیاء علیہم السلام کی ،اور اسی حدیث میں یہ لفظ بھی ہے اَخْرِجُوْ امِنَ النَّارِ مَنْ کَانَ فِیْ قَلْبِہٖ مِثْقَالُ ذَرَّۃٍ مِّنْ اِیْمَانٍ یعنی انبیاء علیہم السلام اور ملائکہ کو حکم ہوگا کہ دوزخ سے اس شخص کو بھی نکال لو جس کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہو۔ ان دونوں کے ملانے سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کہ جولوگ شفاعت سے رہ گئے تھے ان میں ذرہ برابر بھی ایمان نہ ہوگا۔ تواب اس پر اشکال ہوتا ہے کہ یہ لوگ مومن ہوں گے یاکافر ؟ اگر کافرہوں گے تو ان کی مغفرت بعد میں بھی کیسے ہوگی کیوں کہ کافر کی مغفرت ممتنع ہے اور اگرمومن ہیں تو کسی شفاعت کرنے والے نے مؤمنین نے یاملائکہ نے یاکسی نبی نے کیوں شفاعت نہیں کی ، جب کہ یہ حکم ہوا تھا کہ جن کے دل میں ذرہ برابر بھی ایمان ہے ان کو بھی نکال لیا جائے۔ اس اشکال کا جواب یہی ہے کہ یہ شق توباطل ہے کہ وہ کفار ہوں کیونکہ کافر کی بخشش نہیں ہوسکتی بلکہ وہ مومن ہی ہوں گے لیکن ان کاایمان اتنا ضعیف اور اس قدر مخفی ہوگا کہ انبیاء علیہم السلام کے ادراک میں بھی نہ آئے گا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو علم کامل عطافرمایا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ بعض کا ایمان ایسا ضعیف بھی ہوتا ہے کہ انبیاء علیہم