آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
کے سبب معصیت وحرام ہیں جیسے دیوالی سے بہی کھاتا کا حساب شروع کرنا، یا مقتداؤں کو لفظ خدواند سے خطاب کرنا یا ان سے دعامانگنا جیسا کہ آغاخانیوں کا طرز ہے، لِقَوْلِہٖ تَعَالیٰ وَلاَتَرْکَنُوْا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ۔ پ۱۲) ۴۔ عادات مخصوصہ بالمسلمین دلیل اسلام ہیں بشرطیکہ کوئی یقینی دلیل کفر کی نہ ہو، ورنہ کفرہی کا حکم کیاجاوے گا اور اسلام کی وجہ واحد کو کفر کی وجود متعددہ پرترجیح اسی وقت ہے جب کہ وہ جوہ کفر محتمل ہوں متیقن نہ ہوں ، لِقَوْلِہٖ صَلَّی اللّٰہُ علیہ وسلم من صلی صلوتنا واستقبل قبلتنا واکل ذبیحتنا فذلک المسلم (رواہ البخاری) ولقولہٖ تعالیٰ اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْفُرُوْنَ بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ وَیُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَّخِذُوْا بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلاً اُوْلٰئِکَ ہُمُ الْکَافِرُوْنَ حَقَّا۔(پ ۶) ۵۔موجباتِ کفر کے ہوتے ہوئے محض دعویٰ اسلام وصلوٰۃ واستقبال بیت الحرام ترتب احکام اسلام (مثلاً اس پر نماز جنازہ کا پڑھنا اور مقابر مسلمین میں دفن کرنا) کے لئے کافی نہیں جب تک کہ ان موجبات سے تائب نہ ہوجائے ،لقولِ النبیﷺ آیۃ المنافق ثلث رواہ الشیخان زاد مسلم وان صام وصلی وزعم انہ مسلم ۔(تأمّلْ ) ۶۔باوجود ثابت کفر کے ا سلام ظاہر کرنے والوں کے ساتھ بنابرمصالح اسلامیہ مسلمانوں کا برتاؤکرنا مخصوص تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک کے ساتھ اب وہ حکم باقی نہیں رہا،عن حذیفۃ قال انماالنفاق کان علی عہدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فاماالیوم فانما ہوالکفر اوالایمان وفی اللمعات فی شرح الحدیث ای حکمہ بعدم التعرض لاہلہ۔ والسترعلیہم کان علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لمصالح کانت مقتصرۃً علی ذالک الزمان، اما الیوم فلم تبق تلک المصالح فنحن ان علمنا انہ کافرسراقتلناہ حتی یومن : بلکہ بعض احکام کے اعتبار سے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اخیر عہد میں معاملہ