آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
وینفرد احد ہما بنقضہ ای التحکیم قبل وقوعہ، فان حکم لزمہم ولا یبطل حکمہ بعزلہما لصدورہ عن ولا یۃ شرعیۃ اھ (ص۵۴۰ج۴) قلت فلا یردعلیہ مافی رد المحتار (ص۴۷۷ج۴) وہذاحیث لاضـرورۃ والافــلہـم ای للعامۃ تولیۃ القاضی ایضا کمایأتی بعدہ وقال بعداسطروأما بلادعلیہاولا ۃ کفارفیجوز للمسلمین اقامۃ الجمع والأعیاد،ویصیر القاضی قا ضیًا بتراضی المسلمین اھ۔ فان معنا ہ أنہ یصیر قاضیابتراضی المسلمین اذا حصلت لہ ولا یۃ عامۃ فی محل قضائہ لماعرفت أن الولایۃ احد ارکان القضاء واہل العہد لوجعلوا قاضیا منہم بتراضیتہم لا یکون لہ ولا یۃ علی احداصلا کما ہومشاہدمن حالہم فافہم (ظفر احمد)۔ (القول الماضی فی نصب القاضی ص۲۵) اگرزوجین اپنے اپنے حکم کو طلاق یاخلع کا اختیاربھی دے دیں تووکالۃً وہ اس کے مختار بھی ہوجاویں گے۔ (بیان القرآن ص۵ سورہ نساء) مولاناعبدالماجد صاحب ؒ حضرت تھانویؒ کی خدمت میں تحریر فرماتے ہیں : سوال: عزیزوں میں ایک نوجوان کی شادی ابھی چندروز ہوئے ہوئی تھی، اب بیوی شوہر کے ناکارہ ہونے کی بناپر خلع کا مطالبہ کررہی ہے ،شوہر کو اس دعویٰ سے قطعی انکار ہے ،اب حل کی شرعی صورت کیا ہوگی؟ جواب: جداگانہ کا غذپر مرقوم ہے ،مگر یہ فیصلہ اس وقت نافذ ہوگا جب زوجین بہ تراضی کسی کوحَکَم بنالیں ،یعنی شرعی فیصلہ کے نافذ کرنے کا اختیاردیدیں وہ حکم بجائے قاضی کے ہوجائے گا۔(حکیم الامت نقوش وتاثرات ص۱۹۷) (تنبیہ:) مفقود( کے مسئلہ )میں تحکیم (یعنی حکم کے ذریعہ مسئلہ کا حل)متصورہی نہیں کیونکہ تحکیم میں تراضی فریقین شرط ہے اور مفقود کی رضا بھی مفقود ہے