آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
مرد سے نکاح کرسکتی ہے اور قاضی شرعی نہ ہوتو عورت کو بجز صبر کے کچھ چارہ نہیں ۔ (۹)ا گر کوئی شخص اپنی بیوی کو تین طلاق دے کر یہ دعویٰ کرے کہ میں نے ہوش وحواس کی حالت میں طلاق نہیں دی بلکہ میں مدہوش یا مغلوب الغضب تھا تو اس صورت میں عورت کو شوہر کے اس قول کی تصدیق جائز نہیں بلکہ اس مقدمہ کا مرافعہ قاضی کی عدالت میں لازم ہے اگر وہ اس طلاق کو طلاق تسلیم نہ کرے جس کے خاص شرائط ہیں تب تو عورت شوہر کے پاس رہ سکتی ہے ورنہ نہیں رہ سکتی ۔ (شامی معہ الدر،باب طلاق المدہوش ج۲) (۱۰) کسی نے نکاح فاسد کرلیا تو اس نکاح کو قاضی ہی فسخ کرسکتا ہے یاشوہر بیوی کو خود چھوڑ دے۔ (عالمگیری ص۴۰ج۲) اگر وہ نہ چھوڑے توبدون قاضی کے عورتوں کو اس حالت میں سخت مصیبت کا سامنا ہے ۔ یہ چند مسائل صرف باب نکاح وطلاق کے بطور نمونہ کے عرض کئے گئے ہیں باقی ابواب نسب وقف ومیراث وغیرہ میں جومسائل قاضی شرعی کے وجودپر موقوف ہیں وہ اس سے بھی زیادہ ہیں جن میں بدون قاضی کے مسلمانان ہند کو سخت تکلیف ہے اور اس تکلیف کو وہ بدون گورنمنٹ کی امداد کے حل نہیں کرسکتے ،کیونکہ قاضی کے لئے مسلم ہونے کے ساتھ صاحب حکومت ہونا بھی ضروری ہے ۔ (تنبیہ)جن مسائل میں قضاء قاضی شرط ہے ایسے مسائل میں حاکم کافرکافیصلہ ہرگزکافی نہیں حاکم کا فرکے فیصلے سے نہ نکاح ہوسکتا ہے نہ طلاق واقع ہوسکتی ہے نہ ثبوت نسب ہوسکتا ہے نہ مفقود کو میت کہا جاسکتا ہے ۔ (القول الماضی فی نصب القاضی ص۲۱،۲۲،۲۳)