آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اسی طرح اگر میرا لکھا ہوا کوئی مشتبہ فتویٰ کسی کی نظر سے گذرے اس میں بھی یہی تقریر معروض ہے کیونکہ بعض اوقات لکھنے کے بعد خودمجھ کو بعض جوابوں کا غلط ہونا محقق ہوا ہے ،میں نے سائل کا پتہ معلوم ہونے پر اس کو مطلع بھی کردیا ہے، لیکن پتہ معلوم نہ ہونے کی صورت میں یااس سائل کے پاس میری تصحیح کے محفوظ نہ رہنے کی تقدیر پر احتمال غلطی میں پڑنے کا ہوسکتا ہے اس لئے احتیاطاً یہ عرض کیاگیا۔ میری تحریرات میں جو مضامین ازقبیل علوم مکاشفہ ہیں جو کہ علم تصوف کی ایک قسم ہے جس کو حقائق ومعارف سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے اور حجج شرعیہ ان سے ساکت ہیں ان کو حسب قاعدہ اصولیہ وکلامیہ امور ثابۃ بدلائل شرعیہ کے درجہ میں نہ سمجھنا چاہئے ،بلکہ بالکل اعتقاد نہ رکھنا بھی جائز ہے اور اگر اعتقاد رکھے تو محض احتمال کے درجے سے تجاوز نہ کرے۔ (چند تنبیہات)(۱) انوارالوجود کو عام لوگ نہ دیکھیں اور خواص بھی ان کو صرف ذوقیات ولطائف کے درجہ سے آگے نہ بڑھاویں ۔ (۲) نیل الشفا کے متعلق النورنمبر۹ج۳ میں ایک تنبیہ شائع ہوگئی ہے اس کے خلاف نہ کریں ۔ (۳)بہشتی زیور وگوہر وامدادالفتاویٰ مع تتمات اور حوادث کے ساتھ ترجیح الراجح کاضرور مطالعہ فرماویں کہ اس میں بہت مقامات کی اصلاح ہے اور مکمل ومدلل بہشتی زیور وگوہر کے طبع میں مولوی شبیر علی نے ان ضروری اصلاحات کو لیا بھی ہے۔ (۴)جمال القرآن میں متعدد تسامحات ہوگئے ہیں اب اصلاح کے بعد مولوی شبیر علی اس کو شائع کرنے والے ہیں اس کو اصل سمجھیں ۔ آخر میں احباب سے دعاء کی استدعا ہے کہ حق تعالیٰ میری خطا وعمدکو معاف فرمائے اورمیری تقریرات وتحریرات کو اضلال کاسبب نہ بناویں ۔۱؎ ------------------------------ ۱؎ اشرف السوانح ص۱۱۲،۱۳۵ج ۳،بوادرالنوادر ۴۲۸