آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اس کے بقدر وہ بھی اہل استطاعت پر کچھ فیس لگادینے میں مضائقہ نہیں ۔ ۳- ہر سوال کے جواب کی کوشش کرنا، نہ بھی معلوم ہو تو یہ نہ کہنا کہ ’’نہیں جانتا‘‘ بلکہ کچھ کھینچ تان کر لکھ دینا۔ ۴- اسی طرح معلوم ہونے پر بھی ہر سائل کے سوال کا جواب دینا ضروری نہیں اس کا اثر عوام پر برا پڑتا ہے علماء کو اپنا تابع بنانے کی کوشش کرتے ہیں لہٰذا جو سوال فی نفسہ یا کسی سائل کے اعتبار سے غیر ضروری ہو تو صاف کہہ دیا جائے کہ یہ سوال غیرضروری ہے۔ ۵- یا جوسائل دلیل سمجھنے کی لیاقت نہ رکھتا ہو اور دلیل معلوم کرنا چاہے، اس کو بھی صاف جواب دیدینا چاہئے سمجھانے کی کوشش نہ کرنے لگے۔ ۶- جب دلیل اِنِّی کے متعلق یہ مشورہ ہے تو دلیل لِمِّی یعنی علت دریافت کرنے کی عوام کو گنجائش ہی نہ دے کہ اس کا علم تو پورا پورا خود علماء کو نہیں ، الا ماشاء اﷲ۔ مثلاً نماز کے پانچ وقت فرض ہونے کی دلیل اِنِّی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے اور دلیل لِمّی، اس کی وہ حکمتیں ہیں جن کی بناء پر نماز فرض کی گئی۔ ۷- بعض لوگ فرمائش کرتے ہیں کہ قرآن مجید سے پانچ وقت کی نماز کا ثبوت لاؤ، اب مجیب صاحب ہیں کہ قرآن مجید میں اس کی تلاش کرتے ہیں اور دوسروں سے مدد لیتے پھرتے ہیں ، حالانکہ حکم شرعی کے لیے مطلقاً دلیل شرعی کافی ہے، خاص دلیل کی حاجت نہیں اور دلائل شرعیہ چار ہیں کتاب، سنت، اجماع وقیاس مجتہد، ان میں سے کسی ایک دلیل سے بھی جو حکم ثابت ہوجائے وہ ثابت ہے البتہ حسب تفاوت ادلہ ثبوت احکام کا درجہ متفاوت ہوگا۔ ۸- بعضے استفتاء کرنے والے حیلے پوچھا کرتے ہیں جو ہرگز نہ بتلانا چاہئے۔ ۹- بعض اوقات سوال مہمل ہوتا ہے اور وہ دو صورتوں کا محتمل ہوتا ہے، وہاں اکثر اہل علم تشقیق سے جواب دے دیتے ہیں کہ یہ صورت ہو تو یہ حکم اور وہ صورت ہو تو وہ حکم اس سے تجربہ کاروں نے منع فرمایا ہے کیونکہ نا خدا ترس لوگوں کو اپنی مرضی کے مطابق سوال تراش لینے کی گنجائش ملتی ہے کہ وہ مفید مطلب ہی شق کے مدعی بن