آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
اول: بدون حجت شرعیہ کے کسی کی طرف خصوص مومن کی طرف کسی قول یافعل قبیح کا منسوب کرنا بہتان اور صریح گناہ ہے اور خصوص درخصوص کسی امر مبطن مثل نیت وغیرہا پر حکم کرنا حدیث ھلاشققت قلبہ میں اسی پر تنبیہ ہے۔ دوم: بعد ثبوت شرعی بھی بدون ضرورت شرعیہ اس کا تذکرہ کرنا جب کہ منسوب الیہ کوناگوار ہو غیبت، حرام اور معصیت ہے ۔ سوم: البتہ ضرورت شرعیہ سے اس کی اجازت ہے اور منجملہ ان ضرورتوں کے کسی مسلمان یامسلمانوں کو ضرر سے بچانا بھی ہے خواہ وہ ضرردنیوی ہو یا دینی۔ چہارم: لیکن اس ضرورت مذکورہ سے بھی تذکرہ میں یہ واجب ہے کہ لعن وطعن وتمسخر واستہزاء اور دشنام اور فحش الفاظ سے خصوص ایسے کلمات سے جو عرفاً کفاروفجار کے حق میں استعمال کئے جاتے ہیں احتراز کیا جائے ،اگر دلیل شرعی سے کسی قول وفعل پر رداور نکیرکرنا ہو توحدود شرعیہ کے اندر علمی عبارات کا استعمال کرے مثلاً فلاں امر بدعت ہے، معصیت ہے ،باطل ہے، وامثالہا جیسے میں کانگریس کی شرکت بہیئت کذائیہ کومعصیت اور اس کے اجتہادی ہونے کو باطل کہا کرتاہوں ۔ پنجم: البتہ انتقام میں یہ بھی جائز ہے دوشرط سے ایک یہ کہ بالمثل ہو ، دوسرے یہ کہ وہ امر مماثل کسی مستقل دلیل علی الاطلاق سے ناجائز نہ ہو مثلاً زید نے عمر وکے والد یا استاذ یاشیخ کو برا کہا تو عمر وکوانتقام کے وقت یہ جائز نہیں کہ وہ زید کے بزرگوں کوبراکہے۔ ششم: لیکن اگر غضب للدین کے غلبہ میں احیاناً بلا اعتیاد کوئی ایسا لفظ نکل جاوے تو معذور سمجھا جائے گا ، جیسے حضرت ابن عباس نے نوف بکالی کو عدواللہ کہہ دیا۔ ہفتم : معصیت ہر حال میں معصیت ہے حسن نیت دافع معصیت نہیں ہوتی