آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
(دینی)احتیاج پیش کرے تونفع پہنچادے(یعنی دین کی تعلیم کرے)اوراگر کوئی اس کے پاس احتیاج نہ پیش کرے تووہ بھی اپنے آپ کو بے پرواکرکے رکھے (روایت کیا اس کو رزین نے،تیسیر ص۳۱۷) فائدہ: جماعت صوفیہ (اور علمائے محققین میں )نصیحت کے باب میں اکثر کا مسلک یہ ہے کہ زیادہ کسی کے پیچھے نہیں پڑتے ،ایک دوبار کہہ کر اپنا حق اداکردیا، اگر مان لیا توبہتر ،ورنہ اپنے شغل میں لگتے ہیں أغنیٰ نفسہ‘ اپنے عموم سے اس عادت کا ماخذ ہے ۔ اور دوسری جزئی اس کی یہ بھی ہے کہ اپنی دنیوی حاجت ان کے سامنے پیش نہیں کرتا۔۱؎ میری رائے یہ ہے کہ عوام کے درپے نہ ہو ایک حدیث شریف میری نظر سے گذری مجھے بہت پسند آئی ارشاد ہے کہ نعم الفقیہ ان احتیج الیہ نفع وان استغنی عنہ اغنی نفسہ‘ (رزین نے اس حدیث کی تخریج کی ہے)۔ حضرت حاجی صاحب ؒ نے مجھ کو نصیحت کی ہے کہ جب تم سے کوئی جھگڑے توتم سب رطب ویابس اس کے سپرد کرکے علیحدہ ہوجانا، جیسا ایک شخص نے حجام سے کہا تھا کہ میری ڈاڑھی میں سے سفید بال چن دے اس نے ساری ڈاڑھی اتارکرسامنے رکھ دی کہ مجھ کو تو اتنی فرصت ہے نہیں تم خود بیٹھے ہوئے چنتے رہو۔ جب ردوقدح کی نوبت آگئی تو پھر کام کرنے کا کیا لطف رہا ، جوشخص دوستی سے بھی گھبراتا ہو اس کو اختلاف سے دلچسپی کیا ہوگی ؟ مگر لوگ اپنے اوپر قیاس کرتے ہیں گویایہ بھی لوگوں کا ایک مشغلہ ہوگیا ہے اور ہم نے چونکہ بزرگوں کا طرز دیکھا ہے اس لئے ہم کو اس سے نفرت ہے کہ یہ کیا خرافات ہے ۔۲؎ ------------------------------ ۱؎ التکشف عن مھمات التصوف ۲؎ القول الجلیل ص۵۳