بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
ہیں ، وہ نبی جو سب کے دلوں کا پیارا تھا، سب کو محبوب تھا، جسے صادق وامین کہا جاتا تھا، جسے سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا تھا، اب کانٹے کی طرح چبھنے لگا ہے، اب لوگوں کی مخالفت کا مرکز بن گیا ہے، اس پر پھبتیاں کسی جارہی ہیں ، اسے جھوٹا بتایا جارہا ہے، اسے جھوٹا، فریبی، جادوگر، کاہن، شاعر، پاگل، دیوانہ اور نہ جانے کیا کیا کہا جارہا ہے، اس کی راہوں میں کانٹے بچھائے جارہے ہیں ، وہ قرآن پڑھتا ہے تو شور مچایا جارہا ہے، کہا جارہا ہے: لَا تَسْمَعُوا لِہَذَا الْقُرآنِ وَالْغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ۔ (حٰم السجدہ/۲۶) اس قرآن کوسنو ہی نہیں ، اور اس کے بیچ میں غل مچا دیا کرو تا کہ تمہیں غالب رہو۔ عین حالت نماز وسجدہ میں اس کے جسم پر اوجھ ڈالی جارہی ہے، چادر لپیٹ کر گلاگھونٹنے کی کوشش کی جارہی ہے، راستے میں غلاظت ڈالی جارہی ہے۔ عزیزو! غور کیجئے گا، کانٹے بچھائے جارہے ہیں ؛ تاکہ توحید اور حق کا راستہ رک جائے، غلاظت ڈالی جارہی ہے؛ تاکہ حسن کردار کی پاکیزگی اورشفافیت نہ رہے، بوجھ کے نیچے دبایا جارہا ہے؛ تاکہ سچائی سر نہ اٹھاسکے، گلا گھونٹ کر وحی کی آواز بند کی جانے کی کوشش ہورہی ہے۔ یہ تھے ستم کے انداز، سچ کہا تھا صادق ومصدوق پیغمبرا نے: لَقَدْاُوْذِیْتُ فِي اللّٰہِ مَا لَمْ یُؤْذَ أَحَدٌ۔(مشکوۃالمصابیح: الرقاق: باب فضل الفقراء) مجھے اللہ کے راستے میں اتنی تکلیفیں پہونچائی گئی ہیں جتنی کسی اور کو نہیں پہونچائی گئیں ۔ قربان جائیے ان پر! کانٹوں سے تواضع ہوئی، مگر وہ پھول برساتے رہے، گندگی ڈالی گئی مگر وہ سماج کو پاکیزہ بنانے میں لگے رہے، ان کو بوجھ تلے دبایا گیا مگر وہ انسانیت سے