بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
معمولی سا فرق ہوگا جو ان دونوں انگلیوں کے درمیان ہے ۔ بیوائیں منتظر تھیں ، بیوگی کا داغ ان کے لئے تمام حقوق سے محروم کرنے والا داغ بن گیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کا حق دلوانا تھا، ان کی عظمت بحال کرنی تھی اوران کا سہارا بننا تھا، اسی لئے آپ اسے کہلوایا گیا: اَلسَّاعِي عَلَی الأَرْمَلَۃِ وَالْمِسْکِیْنِ کَالْقَائِمِ لاَ یَفْتُرُ وَکاَلصَّائِمِ لاَ یُفْطِرُ۔(متفق علیہ، بخاری: الادب: باب الساعی علی المسکین) بیوہ اور مسکین کاخیال رکھنے والا کبھی نہ تھکنے والے تہجد گزار اور ہمیشہ روزہ رکھنے والے روزہ دار کی طرح ہے ۔ مظلوم وستم رسیدہ منتظر تھے، جوظالموں کے شکنجۂ ظلم میں پس رہے تھے، کوئی ان کو بچانے والا نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو ان کا پشتیبان بننا تھا، ان کو ظلم سے بچانا تھااور ان کو محرومی سے نکالنا تھا، اسی لئے آپ اسے کہلوایاگیا: أُنْصُرْ أَخَاکَ ظَالِماً أو مَظْلُومًا۔ (کنزالعمال:۳/۱۶۷) اپنے بھائی کی مدد کروخواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم، مظلوم کی مدد یہ ہے کہ اس کو ظالم کے شکنجہ سے بچایا جائے اور ظالم کی مدد یہ ہے کہ اس کو ظلم کرنے سے روکاجائے۔ مزید یہ بھی کہلوایا گیا: اِتَّقِ دَعْوَۃَ الْمَظْلُوْمِ، فَاِنَّہُ لَیْسَ بَیْنَہاَ وَبَیْنَ اللّٰہِ حِجَابٌ۔ (الترغیب والترہیب للمنذری:۳/۱۸۶) مظلوم کی بددعا سے بچو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ نہیں ہوتا ہے۔