بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
بہار کے آنے سے پہلے ہی اس کی علامتیں نمایاں ہونے لگتی ہیں ، صبح ہونے سے پہلے ہی اس کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں ، بارش ہونے سے پہلے ہی ٹھنڈی ہوائیں اس کی تمہید بن کر جسم وروح کو باغ وبہار کرتی ہیں ، رسول صلی اللہ علیہ و سلم کرم صلی اللہ علیہ و سلم کی شکل میں پوری انسانیت پر وہ فصل بہار آنے والی تھی جسے کبھی خزاں رسیدہ نہیں ہونا تھا، جس کے لئے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے جگر گوشہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ اللہ کے سامنے دست سوال دراز کیا تھا، اور یہ کہا تھا: رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیْہِمْ رَسُوْلاً مِنْھُمْ یَتْلُوعَلَیْہِمْ آیَاتِکَ وَ یُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَ الْحِکْمَۃَ وَ یُزَکِّیْہِمْ، اِنَّکَ اَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ۔(البقرہ/۱۲۹) اے ہمارے پروردگار ! ان میں ایسا رسول بھی بھیجنا جو انہی میں سے ہو، جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے ، انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاکیزہ بنائے، بیشک تیری، اور صرف تیری ذات وہ ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے، جس کی حکمت بھی کامل ۔ اور خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ: أَنَا دَعْوَۃُ أَبِيْ إِبْرَاہِیْمَ۔(کنزالعمال:۱۱/۱۷۳) ـمیں اپنے باپ ابراہیم کی دعا کی قبولیت کا مظہر ہوں ۔ آپـ صلی اللہ علیہ و سلم کی شکل میں گمراہی کی سیاہی میں لپٹی دنیا کے لئے ہدایت کی وہ صبح اور یقین کی وہ سحر طلوع ہونے والی تھی جس کے بارے میں خالق کون ومکان کا یہ فیصلہ تھا کہ: یُرِیْدُوْنَ لِیُطْفِؤُاْ نُورَ اللّٰہِ بِاَفْوَاہِہِمْ وَاللّٰہُ مُتِمُّ نُوْرِہٖ وَ لَوْکَرِہَ الْکَافِرُوْنَ۔(الصف /۸)