بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
حضرت دحیہ کلبی کے ہاتھ روانہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے قبول اسلام کا حکم دیتے ہوئے آگاہی بھی دی کہ تم ہمارے اور اپنے درمیان قدر مشترک کلمہ توحید کو بصدق دل قبول کرلو، ورنہ سب کی گمراہی کا وبال تم پر ہوگا، یہ خط بیت المقدس میں اس کے پاس آیا، اس نے عرب کے کسی تجارتی قافلے کی تلاش کرائی؛ تاکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرسکے، ابوسفیان (اس وقت کافروں کے سردار) اپنے تجارتی قافلے کے ساتھ اسی علاقے میں تھے، انہیں ہرقل کے دربار میں لایا گیا، ہرقل نے ان سے ۱۱؍سوالات کئے، ابوسفیان نے جواب دئے، پھر ہرقل نے ہر جواب پر ایسا نپاتلا تبصرہ کیا جو بجائے خود اس کی مذہبی وتاریخی معلومات اور ذہانت کا ثبوت ہے۔ (۱) ہرقل نے پوچھا : اس مدعیٔ نبوت کا نسب کیسا ہے؟ ابوسفیان بولے: بہت اعلیٰ واشرف۔ (۲) ہرقل نے پوچھا : کیا ان کے خاندان میں پہلے کسی نے نبوت کادعویٰ کیا ہے؟ ابوسفیان بولے: نہیں ۔ (۳) ہرقل نے پوچھا : ان کے خاندان میں کوئی بادشاہ گذرا ہے؟ ابوسفیان بولے: نہیں ۔ (۴) ہرقل نے پوچھا : ان کے پیروکار قوم کے ذی وجاہت لوگ ہیں یا کم زور لوگ؟ ابوسفیان بوے: کمزورلوگ۔ (۵) ہرقل نے پوچھا : ان کے پیروؤں کی تعداد بڑھ رہی ہے یا گھٹ رہی ہے؟ ابوسفیان بولے : بڑھ رہی ہے۔ (۶) ہرقل نے پوچھا : کیا ان کے دین میں داخل ہوکر دین سے متنفر ہوکر کوئی پھرا ہے؟