بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
تُعْبَدْ فِي الأَرْضِ۔ الٰہ العالمین! میں اپنی آخری پونجی لے کر آگیا ہوں ، اگر یہ بھی نہیں رہی تو اس زمین پر آپ کی عبادت نہیں ہوسکے گی۔ اَللّٰہُمَّ ہٰذِہٖ قُرَیْشٌ قَدْ أَقْبَلَتْ بِخُیَلاَ ئِہَا وَفَخْرِہَا تُحَادُّکَ وَتُکَذِّبُ رَسُوْلَکَ، اَللّٰھُمَّ فَنَصْرَکَ الَّذِيْ وَعَدْتَنِي۔ الٰہی یہ قریش اپنے فخر وغرور سے آئے ہیں ، یہ آپ کی مخالفت اور آپ کے رسول کی تکذیب کررہے ہیں ، بار الٰہا! میں آپ سے وہی مدد مانگ رہا ہوں جس کا آپ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے۔ (السیرۃ النبویۃ و اخبار الخلفاء: لابن حبان:۱/ ۱۶۸، دلائل النبوۃ: للبیہقی :۳/۳۵) دعا کے دوران ایک بار بے قراری کے عالم میں جسم اقدس سے چادر نیچے کو گرجاتی ہے، صدیق اکبر سے رہا نہیں جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے شانے پر ہاتھ رکھتے ہیں ، چادر اوڑھاتے ہیں ، عرض کرتے ہیں کہ: ’’حَسْبُکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ‘‘ حضور! بس کافی ہے، اللہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو مایوس ونامراد نہیں کرے گا، اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعا کو رد نہیں کرے گا۔(بخاری: المغازی: باب قول اللہ: إذ تستغیثون الخ، مسلم: الجہاد: باب الإمداد بالملائکۃ الخ) اللہ کی رحمت جوش میں آگئی ہے، فرشتہ حاضر ہوا ہے، اے محمد! اللہ نے آپ کو سلام بھیجا ہے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں : ’’ہُوَ السَّلاَمُ وَمِنْہُ السَّلامُ وَإِلَیْہِ السَّلامُ‘‘