بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اور موسم سخت تھا، جس کی وجہ سے وبائی امراض کا حملہ ہوتا تھا، بہت سے مہاجرین مختلف امراض کا شکار ہوگئے، حضرت ابوبکر صدیق، حضرت بلال، حضرت عامر بن فہیرہ رضی اللہ عنہم کو سخت بخار آگیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے ہاتھ دربارِ الٰہی میں اٹھادئے اور عرض گذار ہوئے: اَللّٰہُمَّ حَبِّبْ إِلَیْنَا الْمَدِیْنَۃَ کَحُبِّنَا مَکَّۃَ أَوْ أَشَدَّ، وَصَحِّحْہَا، وَبَارِکْ لَنَا فِيْ صَاعِہَا وَمُدِّہَا، وَانْقُلْ حُمَّاہَا فَاجْعَلْہَا بِالْجُحْفَۃِ۔ (بخاری: الحج: فضائل المدینۃ) خدایا! ہمیں مدینہ کی ویسی ہی محبت عطا فرما جیسی مکہ کی تھی، بلکہ اس سے بھی بڑھ کر،ہمارے لئے مدینہ کے صاع ومد (ناپنے اور تولنے کے پیمانے) میں برکت عطا فرما، اور مدینہ کے بخار کو جحفہ (شریر یہودیوں کی بستی) منتقل فرمادے۔ بعض روایات میں ہے کہ مسلسل امراض کی وجہ سے ممکن تھا کہ مہاجرین کے دلوں میں اس مقام ہجرت کے تعلق سے کبیدگی پیدا ہوتی، اس لئے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دعا بھی فرمائی: اَللّٰہُمَّ أَمْضِ لأَصْحَابِيْ ہِجْرَتَہُمْ، وَلاَ تَرُدَّہُمْ عَلَی أَعْقَابِہِمْ۔ (بخاری: المناقب: باب قول النبی: اللہم امض الخ) الٰہی! میرے صحابہ کے لئے ان کی ہجرت کو مکمل فرمائیے، اور انہیں الٹے پاؤں مت لوٹایئے۔ یہ دعا بارگاہِ الٰہی میں مقبول ہوئی، رسول صلی اللہ علیہ و سلم صلی اللہ علیہ و سلم نے مدینہ کو حرم، مرکز ایمان، طاعون ودجال سے محفوظ، بروں کو چھانٹ دینے والی سرزمین قرار دیا ہے، اس کا پہلا نام ’’یثرب‘‘ تھا، جس کے معنی سنگلاخ اور شوریدہ جگہ کے ہیں ، صحابہ نے اس کا نام ’’مدینۃ الرسول‘‘ رکھ دیا، خود آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کا نام طیبہ اور طابہ رکھا۔ (بخاری: الحج: فضائل المدینۃ)