بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی تعلیمی، تربیتی اور تبلیغی محنت سے ایک انقلابی لہر پیدا کردی تھی، اس انتظام کے ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ پیغام دیا تھا کہ یہ امت اگر علم سے، معرفت سے، دین کی سمجھ سے، قرآن وسنت سے دور رہے گی، ناواقف رہے گی، اپنا وجود، اپنا تشخص اپنا امتیاز اور وقار کھوبیٹھے گی، رسول صلی اللہ علیہ و سلم للہ صلی اللہ علیہ و سلم نے خود اپنے تعارف میں اپنے معلم ہونے کی شان اور علم ومعرفت کی اہمیت کو اسی لئے بار بار آشکارا فرمایا ہے: إِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً۔ (مشکوۃ المصابیح: العلم) مجھے معلم بناکر بھیجا گیا ہے۔ اَلْمَعْرِفَۃُ رَأْسُ مَالِي۔(کتاب الشفاء: قاضی عیاض:۱/۱۲۸) معرفت میرا سرمایۂ زندگی ہے۔ وَالْعِلْمُ سِلاحِيْ۔(ایضاً) اور علم میرا ہتھیار ہے۔ قلب رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر آنے والی پہلی وحی کے بول بھی علم کی اہمیت کا واضح ثبوت ہیں ۔ دوسرا کام جو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے مکہ میں رہتے ہوئے مدینہ منورہ کے لئے کیا ہے وہ یہ ہے کہ نبوت کے تیرھویں سال حج کے موقع پر بیعت عقبۂ ثانیہ لینے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اَوس وخزرج کے ہر ہر محلہ اور قبیلہ کا ایک ذمہ دار منتخب کیا، آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بارہ افراد کو نقیب بنایا، یہ بارہ افراد مدینہ منورہ میں موجود امت مسلمہ کی اجتماعیت اور وحدت کے امین تھے، اس طرح یہ پیغام دیا گیا کہ امت مسلمہ کے ذمہ اجتماعی اور جماعتی زندگی گذارنا فرض ہے، فرقہ بندی، انتشار اور اجتماعی وجود کے بغیر رہنا اس امت کے لئے کسی بھی صورت میں حلال نہیں ہے، اجتماعیت کے شیرازے میں بندھے بغیر اور اپنے کو وحدت کی مقدس لڑی میں پروئے بغیر یہ امت کبھی ’’امت واحدہ‘‘ نہیں بن سکتی، خیر امت ہونے کی حیثیت سے اپنے اوپر عائد