بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
ہوں گے اور تم اس کی پیٹی صلی اللہ علیہ و سلم ور تاج پہنوگے۔ (الروض الانف ۲؍۲۲۵، اسد الغابۃ:۲/۴۱۴) کہاں کسریٰ کے کنگن اور کہاں عرب کے بدو سراقہ کے ہاتھ؟مگر یہ زبان نبوت کا بول تھا، دورِ فاروقی میں فتح مدائن کے بعد یہ منظر مدینہ نے دیکھا کہ عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے کسریٰ کے کنگن سراقہ کے ہاتھ میں ڈالے اور پیغمبر اکی صداقت کا ایک اور نقش دنیا پر قائم ہوا۔ یکم ربیع الاول کو یہ قافلہ غار ثور سے نکلا ہے، ۸؍ربیع الاول دو شنبہ کو قبا پہنچا ہے۔ (سیرۃ احمد مجتبی:۱/۴۵۸) حضرات! ہماری آج کی گفتگواس پر بس ہوتی ہے، مگر عزیزو: آپ نے اس پر بھی غور کیا کہ وہ اللہ جس نے اپنے آخری نبی اکو بے شمار معجزات دیئے، وہ چاہتا تو زمین لپیٹ دیتا، مسافت سمیٹ دیتا، وہ لمحوں میں مدینہ پہنچا دیتا، جو راتوں رات مکہ سے اقصیٰ اور اقصیٰ سے فلک پھر مکہ کا سفر کراسکتا ہے، وہ آن واحد میں مدینہ بھی پہنچا سکتا تھا؛ لیکن یہاں ایسا نہیں ہوا، اللہ کا لاڈلا پیغمبر اپنے صدیق کے ساتھ سات دن کی بھوک، پیاس، مشقت اور تکان برداشت کرکے مدینہ منورہ پہنچ رہا ہے، اللہ اس کے ذریعہ امت کو دین کی خاطر مشقت اٹھانے کا اسوہ اور نمونہ دے رہا ہے، یہ فکر دے رہا ہے کہ جب اللہ کے محبوب اکو دین کے لئے مشقت اٹھانی پڑی ہے تو تم اس کے امتی اور غلام ہوکر مشقتوں سے کیسے بچ سکتے ہو؟ یہ مرحلہ آکر رہے گا۔ حضرات! بس اب گفتگو یہیں ختم ہوتی ہے، سیرتِ محمدی اکے ان فکر انگیز پہلوؤں کو دلوں میں بٹھائیے، تبدیلی کا فیصلہ کیجئے، دین کے لئے جم جانا اور مٹ جانا سیکھئے، اور یاد رکھئے ؎ نوازا جس نے یخ بستہ دلوں کو سوزِ ایماں سے مٹایا جہل کی ظلمت کو جس نے ذہنِ انساں سے اجالا کردیا دنیا میں جس نے نورِ قرآں سے عظیم انسان اس جیسا نہ آیا ہے نہ آئے گا اسی کی پیروی میں اب بھی انساں چین پائے گا qqq