بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اور تیز کردیتے ہیں ، ان رکاوٹوں سے ان کی حرارت اور بڑھ جاتی ہے، خطرات ان کی استقامت میں اضافہ کردیتے ہیں ، گویا وہ کہتے ہیں ؎ کیا ڈر ہے جو ہو ساری خدائی بھی مخالف کافی ہے اگر ایک خدا میرے لئے ہے یہی سبق شعب ابی طالب میں پیغمبر علیہ السلام کے اسوہ سے امت کو ملتا ہے، شعب ابی طالب کے اس مظلوم قافلے کی مظلومیت دیکھئے اور ان بدبختوں سے جو اسلام اور پیغمبر اسلام ااور اہل اسلام کوانتہا پسند اور تشددپسند کہتے ہیں ، پوچھئے کہ پوری سیرتِ محمدی تو چھوڑو، پوری مکی زندگی چھوڑو، کیا تم کو شعب ابی طالب کے یہ تین سال، ان سالوں میں بہنے والے آنسو، دلوں سے نکلنے والی آہیں اور کراہیں اور غم والم نظر نہیں آتے۔ آج حقوقِ انسانی( ہیومن رائٹس )کا بڑا چرچا ہے، کمیشن بنے ہوئے ہیں ، انسانی جان ومال وآبرو کی بات کہی جاتی ہے، ضمیر کی آزادی، اظہار رائے کی آزادی، انسان کی شخصی آزادی کا شور بلند کیا جاتا ہے، ان نعرے لگانے والوں کے سامنے کیا یہ سچائی نہیں ہے کہ شعب ابی طالب میں محصور مظلوم کاروان کا قصور کیا تھا؟ ایک اللہ کی پرستاری، شر کو شر کہہ دینا، حق کی صدا لگادینا، یہ حق کے پرستار کسی کو ستانہیں رہے تھے،لیکن مکہ کا ظالم طبقہ ان کو برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تھا، آج بھی انہیں ظالموں کے جانشین مختلف شکلوں ، لبادوں اور ٹائٹلوں میں اہل حق کے لئے عرصۂ حیات تنگ کررہے ہیں ، آج پھر وہی رول پلے کیا جارہا ہے، انداز مختلف ہے، شکل جدا ہے، مگر وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے، سیرتِ محمدی اکا یہ باب ہم کو استقامت اور حوصلے کا پیغام دیتا ہے۔ mvm