بیانات سیرت نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم |
|
اپنے قائد سے الگ ہوکر حوصلہ کھو دیں گے، ہمت ہار جائیں گے، ممکن ہے کہ محمدا ان سختیوں سے گھبراکر سپر ڈال دیں ، اور گھٹنے ٹیک دیں ۔ غور فرمائیے، یہ سلسلہ ایک دو دن نہیں ، مسلسل تین سال تک جاری رہا ہے، روایات میں آتا ہے کہ مسلمان بچوں کے بھوک سے رونے اور بلکنے کی آواز مکہ میں گونجا کرتی تھی، ایک ایک قطرہ دودھ اور پانی کے لئے لوگ ترس رہے تھے، مگر ان سخت دلوں کو رحم نہیں آتا تھا، تین سال تک سختی، اذیت اور پریشانی کا جو عالم گذرا ہے، اس کا تصور بھی کرلیا جائے تو رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ، سچ کہا صادق ومصدوق صلی اللہ علیہ و سلم نے: أَشَدُّ النَّاسِ بَلائً الأَنْبِیَائُ ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ۔ تمام لوگوں میں انبیاء کی پھر اس کے بعد درجہ بدرجہ لوگوں کی آزمائش سب سے بڑھ کر ہوتی ہے ۔(کنزالعمال:۳/۱۳۳) حضرت سعد بن ابی وقاص کے سامنے ایک دن اچھا کھانا آیا، تو زار وقطار رونے لگے اور کہا کہ: میں سات میں ساتواں تھا، ہم شعب ابی طالب میں تھے۔ ’’حَتَّی تَخَرَّقَتْ أَشْدَاقُنَا‘‘ بانچھیں پھٹ گئی تھیں ، ایک دن تو سوکھے چمڑے کا ٹکڑا تک کھانا پڑا تھا، درختوں کے پتے کھانے پڑتے تھے۔ معاملہ حد سے تجاوز کرگیا تو نبوت کے نویں سال کے اختتام پر ہشام بن عمرو بن حارث ، زبیر بن ابی امیہ، مطعم بن عدی، ابو البختری، حکیم بن حزام، زمعہ بن اسود وغیرہ کی مداخلت سے اس ظالمانہ مقاطعے کو ختم کرنے اور اس معاہدے کو پھاڑ ڈالنے کی تحریک زور پر آئی، اُدھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے شعب ابی طالب میں اپنے چچا کو خبر دے دی تھی کہ یہ ظالمانہ معاہدہ نامہ دیمک زدہ ہوچکا ہے، اس میں صرف اللہ کا نام باقی ہے، ابوطالب نے یہ بات مکہ کے دشمن سرداروں تک پہنچائی، اور یہ پیغام بھیجا کہ میرے بھتیجے نے خبر دی ہے کہ تمہاری ظالمانہ