آداب افتاء و استفتاء مع علمی و فقہی مکاتبت و مکالمت |
فادات ۔ |
|
جزوکسی باب سے تعلق رکھتا ہے اور کوئی کسی باب سے ،اب اگر سب کو ایک جگہ لکھا جاوے تو کتاب کی ترتیب میں فرق آتا ہے اور جو غرض ہے ترتیب سے یعنی مسئلہ کے نکالنے میں سہولت ہو وہ فوت ہوتی ہے، اس واسطے وہ اجزاء الگ الگ بابوں میں لکھنے پڑتے ہیں ، اب ظاہر ہے کہ جس کی نظرکل بابوں پر نہ ہو وہ اس مسئلہ کو صحیح طورپر کیسے حل کرسکتا ہے، یہ ایسی بات ہے کہ جاہل تو جاہل اس میں کچے پکے مولویوں کو بھی دھوکہ لگ جاتا ہے اور اکثر دھوکہ کھانے کی وجہ یہی ہوتی ہے ۔ میں اس کی مثال میں ایک مسئلہ پیش کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ فقہ میں کنایاتِ طلاق کے باب میں لکھا ہے کہ لفظ اختاری بھی کنایات میں سے ہے اورکنایات کا حکم یہ ہے کہ اگر ان کے ساتھ نیت طلاق کی ہو تو طلاق بائن ہوجاتی ہے، کنایات کے باب میں تو اتنا ہی مذکور ہے کہ اختاری بھی کنایات میں سے ہے، تو حسب قاعدہ مذکورہ ظاہر احکم اس کا یہ ہوگا کہ اگر اس لفظ کو خاوند نے بہ نیت طلاق کہاتو طلاق بائن ہوجائے گی لیکن اس میں ایک شرط بھی ہے جو باب التفویض میں مذکورہے وہ یہ کہ صرف اختاری کہہ دینے سے طلاق نہ ہوگی بلکہ اس میں شرط یہ ہے کہ اس کے جواب میں عورت بھی یہ کہے کہ اخترت تب طلاق ہوگی اور یہ جزو’’باب تفویض الطلاق‘‘ میں لکھا ہے، مطلب یہ ہے کہ اختاری طلاق کا لفظ ہے مگر ایقاع کا نہیں بلکہ تفویض کا یعنی اگر تو چاہے تو طلاق لے لے، تو اگر خاوند نے اس نیت سے کہا ہے اور اس کو منظوریہ ہے کہ عورت اگر چاہے تو طلاق لے سکتی ہے تب تو یہ تفویضِ طلاق ہوگی اور اگر عورت نے کچھ نہ کہا تو کچھ بھی نہیں ،اب دیکھئے کہ جس کی نظر تمام ابواب پر نہ ہو اور صرف باب کنایات ہی دیکھا ہو اس سے جب یہ مسئلہ پوچھاجاوے گا کہ کسی نے اپنی عورت سے اختاری بہ نیت طلاق کہہ دیا ہے تو فوراً کہہ دے گا کہ طلاق بائن ہوگئی، اب نتیجہ کیا ہوگا کہ عدت گذرنے کے بعد یہی مفتی صاحب اس